ہفتہ ‘4 ؍ رمضان المبارک 1442ھ‘ 17؍ اپریل2021ء
ایم این اے سید فیض الحسن شاہ کی جہانگیر ترین سے ملاقات ، ہم خیال گروپ میں شمولیت کا اعلان
کئی غیر جانبدار حلقے اور ذرائع تو ’’اس رحجان‘‘ کو کسی بڑے ’’طوفان‘‘ کا پیش خیمہ بتا رہے ہیں ، اگرچہ ’’فریقین‘‘ تردید کر رہے ہیں تاہم ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کا جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہونا اور ایک ، ایک کر کے ان کے کیمپ میں آتے جانا اچھا شگون نہیں لگتا ، بلاشبہ جہانگیر ترین بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ ’’کہیںنہیں جا رہے‘‘ جبکہ ان کے ساتھ کھڑے ارکان اسمبلی بھی ’’ہم نوا ہیں‘‘ کہ ’’کہیں نہیں جا رہے‘‘۔ تاہم شبہات نے خدشات ضرور پیدا کر دئیے ہیں کہ اگر ’’کوئی کہیں نہیں، جا رہا ‘‘ تو پھر…
ہم نہ سمجھے تیری نظروں کا تقاضا کیا ہے
کبھی جلوہ ، کبھی پردہ یہ تماشا کیا ہے
لگتا ہے ، جہانگیر ترین ابھی تو اپنے کیمپ کی رونقیں بڑھا رہے ہیں ، کہیں جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کرنے کی گھڑی ابھی نہیں آئی۔ اس لیے ارکان اسمبلی بھی کہہ رہے ہیں کہ پارٹی کے وفادار ہیں لیکن جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہیں ، ’’فریق ثانی‘‘ بھی فی الحال اس کیمپ کی رونقوں کو چنداں اہمیت نہیں دے رہا ، ان کا خیال ہے کہ شاید مقدمات سے جان چھڑانے اور چینی کے معاملات طے کرانے کے لیے باقاعدہ ’’پریشر گروپ‘‘ تشکیل دیا جا رہا ہے بہرحال
ابتدائے عشق ہے ، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
٭٭٭٭٭
افغانستان میں فوجی انخلاء کے باعث عدم استحکام کشمیر تک پھیل سکتا ہے: بھارتی جنرل
پنجابی کی کہاوت ہے کہ ’’پالا پاپاں دا یا بھیڑیاں سا کاں دا‘‘
یعنی شامت برے اعمال کے باعث ہے یا برے تعلق داروں ، رشتہ داروں کی وجہ سے ہے ، بھارتی فوج کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت اپنے کرتوتوں کی وجہ سے فکر مند ہیں کہ اگر افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء ہو گیا تو پھر خطے میں امن کی داغ بیل پڑ جائے گی اور خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی بھارتی جرنیل اور ان کے ’’دوستوں‘‘ کی ساری کوششیں ، سازشیں بے نقاب ہو جائیں گے اسی لیے تو بھارتی جرنیل کی پریشانی چھپائے نہیں چھپ رہی اور انہوں نے افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے مابعد اثرات کو اپنے لیے اچھانہ محسوس کرتے ہوئے خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن بھارتی جرنیل کو یاد رکھنا چاہیے کہ ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘۔ آخر کار تو اس نے چھری کے نیچے آنا ہی ہے ، اس لیے خطے میں بدامنی کے کانٹے جو تم نے بوئے ہیں وہ تمہیں چننا ہی پڑیں گے اور کشمیر میں جو ظلم و ستم تم نے روا رکھا ہے اس کا حساب دینا ہی پڑے گا اور بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہو گا ، جنرل بپن راوت کی تشویش بجا ہے کہ جس طرح نیٹو افواج بے نیل مرام افغانستان سے جا رہی ہیں اسی طرح بپن راوت کو بھی کشمیر سے بوریا بستر گول کرنا پڑے گا۔ ویسے بھارتی جرنیل نے نیٹو افواج کے کمانڈر کو افغانستان سے ابھی نہ جانے کا ’’ملفوف‘‘ مشورہ دیا ہے اس پر نیٹو کمانڈر کا جواب یقیناً کچھ ایسا ہی ہو گا کہ …؎
جو تمہاری مان لیں ناصحا تو رہے گا دامن دل میں کیا
نہ کسی عدو کی عداوتیں‘ نہ کسی صنم کی مروتیں
چلو آئو تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتل شہر میں
یہ مزار اہل صفا کے ہیں یہ ہیں اہلِ صدق کی تربتیں
میری جان آج کا غم نہ کر کہ نہ جانے کا تب وقت نے
کسی اپنے کل ہی میں بھول کرکہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں
٭٭٭٭
چینی لینی ہے تو 2 ہزار روپے کی دیگر اشیاء بھی خریدو: پشاور کے کچھ یوٹیلٹی سٹورز کی شرط
یوٹیلٹی سٹورز انتظامیہ کی شرط اس حد تک تو جائز ہے کہ چینی کے ساتھ ساتھ دوسری اشیاء بھی خریدیں ، تاہم پورے 2 ہزار کی شرط عائد کرنا درست نہیں ، کیونکہ 2 کلو چینی کا خریدار 2 ہزار روپے کی دیگر اشیاء کس طرح خریدے گا، ویسے اگر یوٹیلٹی سٹورز انتظامیہ اپنی شرط نرم کر دے تو برسوں پرانی اشیاء جو یوٹیلٹی سٹورز میں پڑی پڑی خراب ہو رہی ہیں اور گرد آلود ہو چکی ہیں وہ بھی ہاتھوں ہاتھ بک جائیں گی۔ تاہم اس کے لیے 2 ہزار روپے کی خریداری کی شرط ختم کر کے ’’ایک کے ساتھ ایک فری‘‘ جیسی پیش کش کی جائے تو گاہک تب ہی آئے گا لیکن پشاور کے بعض یوٹیلٹی سٹورز کی شرط سے لگتا ہے کہ انہوں نے کسی عرب بدو کا قصہ سن رکھا ہو گا کہ اس کا ایک قیمتی اونٹ گم ہوگیا ، اس نے اعلان کیاکہ اونٹ مل گیا تو 2 درہم میں بیچ دوں گا ، جب گم شدہ اونٹ مل گیا تو وہ سستا ترین بیچنے سے کترانے لگا پھر اس نے شرط رکھ دی کہ اونٹ2 درہم کا ہی ہے لیکن جو شخص خریدے گا اسے 2 ہزار درہم کی ایک بلی (جو اونٹ کے ساتھ باندھ دی گئی تھی) بھی خریدنا پڑے گی ، ایسے ہی اب 2 کلو چینی کے ساتھ 2 ہزار کی دیگر اشیاء بھی خریدنا پڑیں گی۔
٭٭٭٭
مودی سرکاری ہسپتال نہیں ، شمشان میں ترقی کر رہی ہے: پریانکا گاندھی
کرونا نے پوری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے لیکن جن ملکوں کی حکومتوں نے صرف اس پر ہی توجہ دی ہے وہاں صورتحال قدرے بہتر اور تسلی بخش ہے جبکہ بھارت جیسے ملک بھی موجود ہیں جہاں حکومت کی نااہلی اور غفلت کے باعث کرونا بے قابو ہے ، احتیاطی تدابیر اور حفاظتی اقدامات کرنے کے بجائے حکومتی وزیر ایسے بیانات دے رہے ہیں جن سے عوام میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ مدھیہ پردیش ریاست کے ایک وزیر پریم سنگھ پٹیل نے کہا ہے کہ ’’کرونا کے باعث مرنے کو کوئی نہیں روک سکتا، بوڑھے ہو کر بھی تو مرنا ہے‘‘ جس پر مذکورہ وزیر کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا سامنا ہے دوسری طرف تشویشناک حالت کے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے جس کے باعث دہلی کے ہسپتال میں ایک بیڈ پر دو ، دو مریضوں کو لٹا کر آکسیجن لگائی جا رہی ہے۔ مودی سرکار کی اسی نااہلی پر کانگریس کی سربراہ پریانکا گاندھی نے کہاکہ ’’مودی سرکار ہسپتال نہیں ، شمشان میں ترقی کر رہی ہے‘‘۔
٭٭٭٭