اللہ تعالیٰ نے عبادات نماز روزہ حج زکوٰۃ کا بنیادی مقصد تقویٰ قرار دیا ہے۔ قرآن کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 183 میں ارشاد ربانی ہے کہ تم پر روزے اس لیے فرض کیے گئے تاکہ تم میں تقویٰ کا وصف پیدا ہو۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان رفتہ رفتہ قرآن اور سیرت کے بنیادی روحانی پیغام سے دور ہوتے چلے گئے اور عبادات کو محض رسم و رواج ہی سمجھ لیا۔ انسان عبادات کی روح سے دور ہو کر اشرف المخلوقات کے مقام سے ہی گرتے چلے گئے۔ حکیم الامت مفسر قرآن علامہ اقبال نے انسان اور مسلمان کے زوال کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
عبادات نے جو معیاری انسان تشکیل دینے تھے وہ نظر نہیں آتے کیوں کہ ہم نے عبادات کے مقصد تقوی کے بارے میں غور کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ روزے کے مقصد اور اہمیت کو جاننے کیلئے تقویٰ کے معنی اور مفہوم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ قرآن میں تقویٰ کا لفظ ڈرنے اور بچنے دونوں معنوں میں آیا ہے۔ قرآن کیمطابق متقی وہ ہے جو نیک اور پرہیزگار ہو برائی سے بچتا ہو اور بھلائی کا طالب ہو۔ تقویٰ پر عمل کرنے والا روزے دار بے حیائی اور دوسری برائیوں سے رک جاتا ہے اور اللہ کی رضا کیلئے نیکی کے کام کرتا ہے۔ اگر کوئی روزے دار روزہ رکھ کر کم تولتا ہے ملاوٹ کرتا ہے ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، ناجائز منافع خوری کرتا ہے اور رشوت لیتا ہے تو وہ تقوی کے راستے سے ہٹ جاتا ہے۔ قرآن اور حدیث کیمطابق رمضان المبارک انسان سازی تشکیل انسانیت اور خود احتسابی کا مہینہ ہے۔ روزہ انسان کو صبر کی تربیت دیتا ہے جس کی وجہ سے روزے دار میں بردباری برداشت دیانت امانت صداقت اپنے عہد کی پابندی عدل و انصاف اور عفو درگزر جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ اگر روزے تزکیہ نفس پیدا نہ کریں اور روزے دار برکت سے محروم رہیں تو جان لیں کہ اس نے روزے کے تقاضے ہی پورے نہیں کیے۔ اگر رمضان میں افطار و سحری کے وقت اعتدال کے قرآنی اصول پر عمل کرنے کی بجائے پرتعیش کھانے کھائے جائینگے اور اعتدال کا خیال نہیں رکھا جائیگا اور برائیوں سے گریز نہیں کیا جائیگا۔ رمضان ہمارے لیے برکت اور رحمت کا مہینہ کیسے بن سکے گا۔ رمضان المبارک ایمان والوں کیلئے نیکیوں کا موسم بہار ہے، اس مہینہ میں دل کی زمین تقویٰ کے بیج کو قبول کرنے کیلئے عام دنوں کی نسبت زیادہ سازگار ہوتی ہے اور نیکیوں کی نشوونما کیلئے روحانی فضا زیادہ موافق ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں رمضان کا خطبہ دیا کرتے تھے، جس میں وہ روزے کی اہمیت اور برکت کے بارے میں مسلمانوں کو آگاہ کرتے تھے۔ انکے خطبے کی روح کے مطابق رمضان کا مہینہ برکت اور رحمت کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں عبادت اور قرآن کی تلاوت پر توجہ دینی چاہیے مگر اس سے بھی بڑھ کر تقویٰ اختیار کرنا چاہیے یعنی جتنی بھی انسان نیکیاں کر سکتا ہے وہ اس مہینے میں کرے تاکہ عبادات اور معاملات میں توازن پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو اور اس کی مخلوق بھی راضی ہو۔ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا کہ راستے میں پڑے ہوئے پتھر اور جھاڑی کو ہٹا دینا تا کہ کوئی ٹھوکر کھا کر نہ گر جائے اور کسی کا پاؤں زخمی نہ ہو جائے۔ ملازم اور مزدور کو اسکی محنت سے زیادہ معاوضہ دینا ، کم منافع پر اشیاء فروخت کرنا، غریب مریض کو مفت دوا دینا، مفلسوں کو روزے رکھوانا، اپنے والدین کا ادب اور احترام کرنا، حق دار کو اسکے حق سے زیادہ دینا، خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلانا، یہ سب تقوی کے کام ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور روزے کو بھی قبول کرلیتا ہے۔ متقی شخص فکر و خیال آنکھ کان زبان اور ہاتھ پاؤں کو اپنے قابو میں رکھتا ہے اور ان کو برائی کی جانب بڑھنے سے روکتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رمضان کے خطبے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ یہ مہینہ ہمدردی اور غمخواری کا ہے ، ہر روزہ دار کو روزہ رکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھوک کتنی تکلیف دہ چیز ہے، اس سے اسکے دل میں غریبوں ، مسکینوں اور فاقہ کشوں کیلئے ہمدردی اور مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ان کی ہرممکن مالی مدد کیلئے مضطرب رہتا ہے۔ جو شخص تقویٰ پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں بھی اضافہ کر دیتا ہے۔ گزشتہ چالیس سال کے دوران پاکستان میں جو انسانی زوال آیا ہے اور جس طرح ہم نے اپنی اخلاقی قدروں کو پامال کیا ہے، اسکے مناظر ہمیں دن رات الیکٹرانک میڈیا پر نظر آتے رہتے ہیں۔ (جاری)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024