مجاہد ختم نبوت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ
تحریر مولاناتاج محمود
حضرت مولانا محمد علی جالندھری ضلع جالندھر تحصیل نکورد کے گائوں رائے پورا رائیاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حضرت شیخ الہندحضرت مولانا محمود حسن دیو بندیؒ کے تلمیذ ارشد حضرت مولانا مفتی فقیر اﷲ صاحبؒ سے حاصل کی۔ جالندھر میں حضرت مولاناخیرمحمد جالندھریؒ کے ہاں آپ نے مزید تعلیم حاصل کی۔ دارالعلوم دیو بند میں دورہ حدیث شریف حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سے آپ نے پڑھا۔ تکمیل کے بعد اپنے استاذ گرامی قدر حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ کے ساتھ مدرسہ فیض محمدی جالندھر میں استاذ مقرر ہوئے۔ کئی سال تک تدریس کی۔ اس دوران میں آپ کی تقریروں کے چرچے ہونے لگے۔ مدرسہ فیض محمدی کے سالانہ جلسہ پر حضرت امیر شریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ اور دوسرے احرار راہنما تشریف لائے تو حضرت جالندھریؒ کو مجلس احرار اسلام میں لے گئے۔ آپ نے محنت اور جذبہ دینی کے تحت مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے انگریز کو دیس نکالا دینے کے لئے گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔ قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ حضرت امیر شریعتؒ، مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ، ماسٹر تاج الدینؒ، شیخ حسام الدینؒ اور دیگر احرار راہنمائوں کی رفاقت نے آپ کی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ آپ آل انڈیا مجلس احرار اسلام کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور یوں مجلس احرار کے صف اوّل کے رہنمائوں میں آپ کا شمار ہونے لگا۔ مجلس احرار اسلام پنجاب کے آپ صدر منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان سے قبل آپ نے ملتان کی مسجد سراجاں حسین آگاہی کی خطابت سنبھالی۔ یہاں مدرسہ محمدیہ قائم کیا۔ پاکستان بننے کے بعد مفتی فقیر اﷲؒ اور حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ کے خاندان کے پاکستان میں آپ میزبان قرار پائے۔ جامعہ خیر المدارس ملتان کا قیام آپ کی مخلصانہ محنت کا شاہد عدل ہے۔
آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سب سے پہلے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ جبکہ صدر مرکز یہ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ تھے۔ حضرت امیر شریعتؒ کی قیادت باسعادت میں حضرت جالندھریؒ اور حضرت ہزارویؒ نے تحریک ختم نبوت 1953ء کی نیو اٹھائی۔ پوری دینی قیادت اور تمام مکاتب فکر کے زعماء کو‘ گویا آگ پانی کو قادیانیت کے خلاف ایک سٹیج پر جمع کر دیا۔ تحریک ختم نبوت1953ء میں حکومتی ظلم کی بھٹی میں پسی ہوئی قوم کو قادیانیت کے مقابلہ میں دوبارہ سہارا دیکر کھڑا کرنا حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاعبادیؒ اور حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کا وہ کارنامہ ہے جس پر وہ امت کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کے تمام تر کام کو ایک منظم شکل میں پرونا حضرت جالندھریؒ کا سنہری کارنامہ ہے۔ حضرت تھانویؒ، حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ، حضرت امیر شریعتؒ، حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مفتی فقیر اﷲؒ کی صحبتوں نے آپ کی شخصیت کو تابدار موتی کی طرح نکھار دیا تھا۔ آپ کی بیعت قطب الار شاد شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ سے تھی۔ آپ نے حضرت ہالیجویؒ اور حضرت مولانا محمد عبداﷲ بہلویؒ اور خانقاہ دین پور سے بھی اصلاحی تعلق رکھا۔جمعیۃ علمائے اسلام کے قیام میں آپ کی مخلصانہ کوششوں کا بہت بڑا دخل ہے۔
حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ کے بعد تیسرے امیرمنتخب ہوئے اور اس سے قبل آپ حضرت امیرشریعتسید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ اور حضرت قاضی صاحبؒ کے ساتھ بطور ناظم اعلیٰ کام کرتے رہے۔ درحقیقت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ جماعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ ارائیں برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنا اچھا خاصا زمیندارہ تھا۔ نکودر ضلع جالندھر کے ایک گاؤں یکوکے رہنے والے تھے۔ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے خاص شاگردوں میں شامل اور مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل عالم تھے۔ مولانا جید عالم، منطقی اور زبردست مناظر تھے۔ وہ شکل وصورت، رہن سہن اور وضع قطع میں ٹھیٹھ پنجابی اور دیہاتی معلوم ہوتے تھے۔ ان جتنی مدلل تقریر احرار کے سارے گروہ میں کوئی مقرر نہیں کر سکتا تھا۔ وہ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوتے، چند جملے اردو زبان میں بولتے تو مجمع سے آوازیں آنا شروع ہوجاتیں کہ مولانا تقریر پنجابی زبان میں کریں اور مولانا جالندھریؒ ٹھیٹھ پنجابی زبان میں تقریر کرنا شروع کر دیتے۔ پنجابی کے محاورے بولتے۔ دیہات کی روزمرہ زبان استعمال کرتے۔ لوگ عش عش کر کے رہ جاتے۔ وہ کھیتوں کی روشوں، ہل چلانے والے کسانوں، ان کی ہل، پنجابی روٹی بھتہ لانے والی کسان کی بیوی، کھیتوں کے سبزے اور فصلوں کی لہلہاہٹ سے اپنا مضمون پیداکرتے۔ دیہاتی زندگی کے سادہ اور فطری مناظر سے اپنی روانی کا ساتھ بناتے سنوارتے چلے جاتے۔
احرار کے زمانے میں انہیں پرولتاری مقرر سمجھا جاتا تھا۔ کسانوں، مزدوروں، غریبوں اور پسماندہ طبقوں کی زندگی کے مسائل کے متعلق بولتے۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام پر سخت تنقید کرتے تو ان کی تقریر دوردور تک پہنچتی۔ اس زمانہ میں معلوم ہوا تھا کہ روسی سفارتخانے میں مولانا جالندھریؒ کی تقریروں کے متعلق خاپص طور پر دلچسپی لی جاتی ہے۔ مولانا جالندھریؒ بعض باتیں عجیب وغریب کہا کرتے تھے۔ مثلاً وہ فرمایا کرتے کہ جس طرح جسم میں جوئیں باہر سے نہیں آتی۔ بلکہ انسان کی اپنی میل کچیل سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس طرح کمیونزم بھی باہر سے نہیں آیا کرتا۔ بلکہ ملکوں اور قوموں کے اندر ہی غربت، معاشی ناہمواری، ظلم اور جہالت کی بدولت پیدا ہو جاتا ہے۔ مولانا جالندھریؒ نے برصغیر کے چپے چپے پر بے شمار تقریریں کیں۔ آخری عمر میں ان کی تقریریں اصلاحی اور تبلیغی ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بڑی بڑی معرکۃ الآراء تقریریں کی ہوں گی۔ لیکن ان کی ایک تقریر فروری 1953ء میں نسبت روڈ لاہور پرہوئی تھی جس ایک تقریر نے لاہور میں آگ لگادی تھی اور دوسرے دن لاہور سراپا تحریک ختم نبوت بن چکا تھا۔ ایک مثالی اور یادگار تقریر تھی۔