بچپن میں میں سمجھتا تھا کہ سوپر ہیرو کے بڑے بڑے پر ہوتے ہیں، وہ جب اُڑتا ہے تو نظر اس کی رفتار کا پیچھا نہیں کر پاتی اور جب وہ رکتا ہے تو معلوم نہیں کہاں جا کر چھپ جاتا ہے۔ اس کی پہچان مخفی اور اس کی طاقت راز رہتی ہے لیکن کیسا بھی دشمن ہو، سوپر ہیرو واپس گھر ضرور پہنچتا ہے۔ اس کی ماں روز اس کا چہرہ دیکھتی ہے لیکن اب سوچتا ہوں کہ ضروری نہیں سوپر ہیرو ایک 6فٹ لمبا چوڑا آدمی ہو۔ یہ خطرناک ترین وباء سے معمولی ماسک پہنے بہادری سے لڑتے ڈاکٹرز، نرسز، پولیس، رینجرز اور آرمی کے جوان بھی تو سوپر ہیرو ہی ہیں جن میں سے بیشتر اپنے پیاروں اور اپنے بچوں کو گلے لگا کر پیار کرنے کیلئے ترس گئے ہیں۔ ان میں حاملہ لیڈی ڈاکٹرز، ایک ایک نوالہ کھلا کر اور پڑھا لکھا کر ایک قابل انسان کو ملک کی خدمت کیلئے وقف کر دینے والے بوڑھے ماں باپ، لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کرنے کیلئے خود سڑک سڑک چھاننے والے پولیس اور فوج کے جوان، سڑکوں پر ماسک پہن کر زہریلا سپرے کرنے والے محنت کش، انتظامی افسر، پھل اور سبزی کی ریڑھی لگانے والے، اشیائے خوردونوش بیچنے والے غریب، یہ سب بظاہر عام دکھنے والے لوگ، یہ کس قدر خاص ہیں۔ آج جب ایک باپ اپنے جواں سال بیٹے کو ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے ہوئے دیکھتا ہے اور پھر اسکے جسدخاکی کا آخری دیدار کرتا ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہاں حقیقی زندگی میں شاید سوپر ہیرو ہمیشہ گھر واپس نہیں آپاتے۔ پائوں کے زخم گہرے اور جسم چھلنی چھلنی ہو جاتا ہے پھر ان کے ماں باپ روزانہ ان کی صورت نہیں دیکھ پاتے لیکن یہ سوپر ہیرو دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024