پولیس کی فائرنگ سے کم سن بچے کی ہلاکت کا معاملہ:آئی جی سندھ کلیم امام نے معافی مانگ لی

آئی جی سندھ کلیم امام نے پولیس کی فائرنگ سے 19 ماہ کے بچہ کی ہلاکت پر معافی مانگ لی.
تفصیلات کے مطابق کلیم امام نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ پولیس کی جانب سے معافی مانگتا ہوں، ہم چاہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں.
انھوں نے کہا کہ افسران سے درخواست کی ہے، پولیس کو ٹریننگ کرائی جائے، پوری کوشش کریں گے کہ آئندہ ایسا کوئی سانحہ نہ ہو.
ان کا کہنا تھا کہ سندھ پولیس واقعے پرافسوس کرتی ہے، سندھ پولیس رول آف لا فالو کرتی ہے، سندھ پولیس عوام، عدالتوں کو جوابدہ ہیں،کل اورکچھ روزپہلےکےواقعات پر متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔
اب بڑا اسلحہ ختم کردیا،چھوٹےہتھیار سے ٹریننگ کرائیں گے، ڈھائی ہزار سے زیادہ پولیس کےجوان شہید ہوئے،53 فیصد قتل کی واردتوں میں کمی آئی، موبائل چھیننےکی وارداتوں میں بھی کمی آئی، حال میں ہونے والے واقعات کو ٹریس کیاگیاہے، 71 دہشت گرداور 12 ٹارگٹ کلرز گرفتارکیے۔
کلیم امام کا کہنا تھا کہ کراچی میں امن و امان کے قیام میں پولیس کی قربانیاں شامل ہیں، سندھ میں چند سال کےدوران ڈھائی ہزار سے زیادہ پولیس کے جوان شہید اور ہزاروں اہلکار زخمی ہوئے، صوبے میں موبائل چھینے کی وارداتوں اور 53 فیصد قتل کی واردتوں میں کمی آئی ہے، داعش کے نائب سرابرہ کا گینگ ختم کیا۔
آئی جی سندھ نے کہا کہ صوبےمیں پولیس کی کارکردگی پہلے سے بہترہے، سندھ پولیس قانون کی پاسداری کرتی ہے، ہم جو کام کرتے ہیں سندھ حکومت کی پالیسی پر عمل کرتے ہیں، ہم عوام کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت اور میڈیا کو بھی جواب دہ ہیں۔
ادھر کراچی میں پولیس کی گولی کا نشانہ بننے والے ننھے احسن کی تدفین کر دی گئی ہے۔ والدین کا کہنا ہے پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے بچے کی جان گئی۔ والد نے پولیس ایف آئی آر کو مسترد کر دیا ہے۔
دوسری جانب پولیس نے واقعے کے ذمہ دار چاروں پولیس اہلکار گرفتار کر لئے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق واقعے کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جا رہی ہے جبکہ اسلحہ فارنزک کیلئے بھجوا دیا گیا ہے۔ کراچی پولیس چیف امیر شیخ نے ننھے احسن کے گھر جا کر والدین سے تعزیت اور فاتحہ خوانی کی.
واضح رہے کہ 16 اپریل 2019 کو شہر قائد کے علاقے گلشن اقبال یونیورسٹی روڈ پر پولیس کی فائرنگ سے 19 ماہ کا کمسن بچہ جاں بحق ہوگیا تھا.
سندھ پولیس کا دس روز کے دوران پولیس کی مبینہ فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد دو ہوگئی ہے.
مقتول بچے کے والد کاشف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ یونیورسٹی روڈ پر رکشے میں جاررہے تھے کہ اسی دوران پولیس کو فائرنگ کرتے دیکھا اور کچھ دیر بعد احسن کے جسم سے خون نکلنے لگا۔ اُن کا کہنا تھا کہ خون بہنے کے بعد ہم اُسی رکشے میں بچے کو لے کر اسپتال پہنچے، مگر وہ اُس وقت تک دم توڑ چکا تھا۔ پولیس نے فائرنگ کرنے والے دونوں اہلکاروں کو حراست میں لے لیا۔