یہ تو ایک فیشن ہے۔ ورنہ مہنگائی کے جواز کو سب دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ واہ! کیا انگریز کا دور تھا، ہر شے سستی تھی۔ مہنگائی کا نام و نشان تک نہ تھا،۔ بس جیسے ہی پاکستان بنا تو مہنگائی سے بھی واسطہ پڑ گیا۔ اس میں پاکستان کا بھی کوئی قصور نہ تھا، ایک نیا ملک چلانے کے لئے پیسے تو درکار تھے اور یہ پیسے ٹیکسوں سے اکٹھے ہو سکتے تھے۔ ایک دو ماہ تک ہارون خاندان یا پیکیجز خاندان سے ادھار لے کر سرکاری ملازموں کو تنخواہ دی گئی مگر ہر ماہ یہ خاندان اس قدر دان تو نہیں کر سکتے تھے۔ اب قائداعظم سے لے کر عمران خان تک کئی حکومتیں آئیں اور گئیں اور ہر ایک نے مہنگائی کے بڑھاوے میں مقدور بھرحصہ ڈالا۔ بھٹو دور میں تو ہم نے قومی سطح پر عہد کیا کہ گھاس کھائیں گے اور ایٹم بم بنائیں گے تو یہ گھاس اب تک کھانا ہماری مجبوری ہے ورنہ بھارت کسی بھی لمحے پاکستان کو کھا جائے گا۔ اب اگر ہم روکھی سوکھی کھا لیں توہماری آزادی برقرار رہ سکتی ہے ورنہ برہمن سامراج کی غلامی تو سامنے کھڑی ہے۔ پاکستانیوں کو روٹی کپڑا اور مکان چاہئے، سڑکیں چاہئیں، ریلوے اور ہوائی جہاز چاہئیں، موٹر ویز کا جال بچھا چاہئے، میٹرو اورا ورنج ٹرینوں کے کھلونے چاہیئں، بجلی‘ گیس، تعلیم اور صحت چاہئے، غرضیکہ سب کچھ چاہئے تو یہ مفت میں سب کچھ مل نہیں سکتا، ہر چیز کی ایک قیمت ہے اور یہ قیمت پاکستان کے عوام ہی کو ادا کرنی ہے۔ کوئی دوسری قوم تو ہمیں یہ سب کچھ خیرات میں دے نہیں سکتی،۔ ہاں! قرضے دے سکتی ہے جن پر سود ہوتا ہے، یہ قرضے ہر حکومت کے دور میں بڑھ جاتے ہیں اور ان پر سود بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان کی ادائیگیوں کے لئے حکومت کو آمدنی چاہئے جو نت نئے ٹیکسوں ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ یا پھر پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لئے نئے قرضے لینے پڑتے ہیں، یہ ایک شیطانی چکر ہے جس میں پاکستانی قوم گھری ہوئی ہے۔ یہاں بد قسمتی یہ ہے کہ جو بھی وزیر خزانہ لگا، وہ ماہر معیشت کم تھا اور اکائونٹنٹ زیادہ تھا۔ اکائونٹنٹ نے تو خانہ پری کرنا ہوتی ہے جبکہ ماہر معیشت کچھ سدھار بھی کرتا ہے، کچھ اپنا دماغ بھی استعمال کرتا ہے، جب بھی حکومت کو مزید پیسے درکار ہوں تو اکائونٹنٹ ہر ٹیکس میں تھوڑا بہت اضافہ کر دیتا ہے۔ بجلی، گیس، آٹا، دال، چائے، ادویات، پٹرول، ہزاروں آئٹمز پر ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے اور کام چلایا جاتا ہے۔ ہم دراصل ایڈہاک ازم کے اصول پر چلتے ہیں۔ آج کا دن گزر جائے، کل کی کل دیکھیں گے۔ اس لحاظ سے ان دنوں جو مہنگائی بڑھ رہی ہے، وہ کوئی غیر فطری حرکت نہیں۔ میں شرط لگاتا ہوں کہ حکومت مہنگائی بعد میں بڑھائے گی۔ پہلے ہم مسلمان ایک دوسرے کو لوٹنے کی کوشش کریں گے اور وہ بھی رمضان کی مقدس ساعتوں میں۔ پکوڑے تک مہنگے ہو جائیں گے، کچوریوںاور فروٹ سلاد کی بات چھوڑیں۔ جب ہم مسلمانی برقرار نہیں رکھ سکتے تو حکومت کو کیا پڑی ہے کہ کوئی ڈھیل دے یا نرمی برتے یا ہتھ ہولا رکھے، اسے تو خزانہ خالی ملا اور اب وہ قرضے لیتی ہے تو پھر بھی بدنام اور نہیں لیتی تو پھر بھی گالیاں کھاتی ہے کہ لوگوں کوکھانے کے لئے کہاں سے دے۔ اسی ملک میں جہاں لوگ ٹیکس نہیں دیتے، وہاں زکوٰۃ، صدقات، خیرات کی بارش ہوتی ہے۔ کہنے کو ہم اسلامی ریاست ہیں مگر ہم اسلامی احکامات بلکہ قرآنی احکامات کے مطابق زکوٰۃ کی ادائیگی سے منکر ہیں۔ علاج تو اس بیماری کا یہ ہے کہ کوئی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی طرح تلوار میان سے نکلا لے اور زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف جہاد کا اعلان کر دے۔ مگر اس حکمران کو پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسا بن کر دکھانا ہو گا۔ اپنا سب کچھ ریاست پر لٹا دینا ہو گا اور پھر مدینے میں اپنی دکان بھی بند کرنا ہو گی کیونکہ اعتراض وارد ہوا تھا کہ خلیفہ کی دکان کھلے گی تو کون کسی دوسری دکان پر جائے گا مگر پاکستان میں تو لوگوں کا کاروبار تب ہی چمکتا ہے جب وہ حکمران بن جاتے ہیں۔ ان پر بنکوں کے قرضوں کی بارش ہو جاتی ہے۔ ٹیکس وصولی کرنے والے محکمے ان سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ مجھے ایک بزرگ نے بتایا ہے کہ رائیونڈ روڈ پر ایک کاغذ کی فیکٹری میں ٹیکس انسپکٹر کو حکم تھا کہ اس نے گیٹ کے اندر آنے کی کوشش کی تو گولی مار دی جائے گی۔ کاغذ کے دس ٹرک نکلتے تھے تواسے حکم تھا کہ صرف ایک ٹرک کا اندراج کرے۔ اس ملک میں کسی نے نہ دیکھا کہ کس قدر اعلیٰ ریڈیو برانڈ کے کاغذ کی تیاری کے لئے کروڑوں کا قرضہ لیا گیا تھا اور کس قدر گھٹیا کاغذ تیار کرنے والی مشینری درآمد کی گئی۔ یہ صرف ایک مثال ہے جبکہ ہر فیکٹری میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ ری بیٹ کی وصولی کے لئے اوور انوائسنگ اور ٹیکس سے بچنے کے لئے انڈر انوائسنگ عام بیماری ہے، اس عالم میںلوگوں کی بیماریوں کے علاج کی طرف کیسے توجہ دی جا سکتی ہے۔ میں بھی یہاں وہی کچھ نہیںکروں گا جیسے حکومت وقت کر رہی ہے کہ ماضی کے حکمران لوٹ مار کر کے چلے گئے۔ اب عوام کی خدمت کے لئے کچھ بچا ہی نہیں۔ مگر میرا کہنا ہے کہ اگر حکومت سنبھالی ہے تو پیش آمدہ چیلنجز سے نبٹنا بھی حکومت ہی کا کام ہے،۔ گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر کے رویئے سے نہ پچاس لاکھ گھر بن سکیں گے، نہ ایک کروڑ نوکریاں دی جا سکیں گی، نہ برآمدات میں اضافہ ہو گا، نہ درآمدات میں کمی واقع ہو گی۔ یہ سب کچھ پلاننگ کے تحت ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے حکومت کو اقتصادی ماہرین کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہاں پانچ سالہ منصوبے بنتے تھے، دنیا میں پندرہ سالہ منصوبہ سازی ہوتی ہے، کوئی حکومت جائے، دوسری آ جائے، منصوبوں کی پیشرفت پر فرق نہیں پڑتا، سنگا پور نے ترقی کی تو لی کیو یوان کی وجہ سے کی جو برسہا برس اقتدار میں رہا مگر جمہوری طور پر۔ ملائیشیا نے ترقی کی تو مہاتیر محمد کی وجہ سے، وہ بھی برسہا برس اقتدار میں رہا مگر جمہوری طور پر، ہمارا کوئی منتخب وزیراعظم اپنی ٹرم کبھی مکمل نہیں کر پایا۔ اس پس منظر میں ملک کی بہتری کیسے ہو۔
مہنگائی سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مہنگی چیزیں نہ خریدی جائیں۔ فاقہ کشی کی جائے، اندھیروں میں زندگی بسر کی جائے۔ گدھا اور بیل گاڑیوں پر سفر کیا جائے۔ یہ پتھر اور غاروں کا دور ہے جس میں امریکہ نے ہمیں دھکیلنے کی دھمکی دی تھی اور وہ اس مشن میں کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ اندھیروں اور غاروں سے نکلنا ہے تو پھر ہمیں مستقبل کی صورت گری کرنا ہو گی۔ حکومت یہ کام کر سکے تو لوگوں کی دعائیں لے گی۔ ورنہ فاقے اور اندھیرے تو ہمارا مقدر ٹھہرے!!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024