بدھ ‘ 11 ؍ شعبان المعظم ‘ 1440ھ‘ 17؍ اپریل 2019ء
مقبوضہ کشمیر میں ووٹ نہ ڈالنے والے شہریوں پر فوجیوں کا تشدد
یہ عجیب سینہ زوری ہے۔ پورے بھارت میں کروڑوں لوگ ووٹ نہیں ڈالتے وہاں تو کہیں بھی کسی کو روک کر ان کی انگلی چیک نہیں کی جاتی کہ اس پر انمٹ سیاہی لگی ہے یا نہیں۔ اس نے ووٹ ڈالا ہے یا نہیں۔ مگر کشمیر میں قدم قدم پر کھڑے بھارتی فوجی اہلکار کشمیریوں کو روک روک کر ان کی انگلی چیک کرتے ہیں کہ اس پر سیاہی لگی ہے یا نہیں۔ اب اگر سیاہی لگی ہے تو پھر چاروں طرف شانتی ہی شانتی رہتی ہے۔ اگر کوئی انگلی سیاہی سے پاک نظر آئے تو پھر اس کشمیری کی شامت آ جاتی ہے۔ اسے فوجی زر و کوب کر کے تماشہ بنا دیتے ہیں۔ اب بھلا کوئی عالمی برادری سے سوال کرے کہ یہ کون سی جمہوریت ہے۔ دنیا میں کس جگہ اس قسم کی بے ہودہ جمہوریت قائم ہے۔ جہاں ووٹ نہ ڈالنے والوں کو مارا پیٹا جاتا ہو، انہیں سرعام مرغا بنایا جاتا ہو۔ اگر ایسا لازم ہوتا تو سب سے پہلے برطانیہ امریکہ ا ور فرانس جیسے ممالک میں یہ کچھ ضرور ہوتا۔ مگر کسی جمہوری ملک میں ایسا کچھ نہیں۔ خود بھارت میں کہیں بھی ووٹ نہ ڈالنے والے کو گدھا یا گھوڑا بنایا نہیں جاتا۔ یہ سب کچھ بھارتی سامراج صرف کشمیریوں کے حوصلے پست کرنے اور انہیں ڈرا دھمکا کر ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کے لیے کر رہا ہے تاکہ دنیا کو دکھا سکے کہ کشمیر سے اسکے پالتو لے پالک سیاسی رہنمائوں نے اتنے فیصد ووٹ لے کر بھارتی لوک سبھا میں نشست حاصل کر لی ہے۔ مگر یہ ڈ ھونگ کب تک چلے گا۔ پورا کشمیر بھارتی الیکشن کا بائیکاٹ کرتا ہے۔ چند بے ضمیر قسم کے لوگ اور بکائو سیاسی گماشتے چند ٹکوں کے عوض بک کر اگر ووٹ ڈالتے ہیں تو اسے ہم کشمیریوں کی آواز نہیں کہہ سکتے۔
٭٭٭٭
ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود مہنگی ادویات سستی نہ ہو سکیں
ادویات ساز کمپنیوں کے گٹھ جوڑ نے حکومت کے احکامات ہوا میں اڑتے ہوئے ادویات کے بڑھائے گئے من مانے نرخ برقرار رکھے ہیں اور وزیراعظم کے حکم کے باوجود گزشتہ روز 72 گھنٹے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے پر بھی ادویات کی قیمتوں میں کمی نہیں کی بلکہ تیار شدہ ادویات کی بھی مارکیٹ میں سپلائی روک دی ہے۔ جس سے ادویات کی پیدا ہونی والی مصنوعی قلت سے کئی بیمار شفا کی بجائے قضا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مگر ان بے درد کمپنیوں کو کسی کی پرواہ نہیں۔ انہیں بس اپنی تجوریوں کے پیٹ بھرنے کی فکر کھائے جاتی ہے۔ پہلے ہی سرکاری ہسپتالوں میں مفت ٹیسٹوں اور ادویات کی فراہمی بند ہو چکی ہے۔ غریبوں میں خوشیاں بانٹنے کے دعوے کرنے والے خود غریبوں کی خوشیاں چھین رہے ہیں تو پھر اس صورت میں بھلا ادویات تیار کرنے والے اپنا منافع کمانے سے کیوں پیچھے رہیں۔ انہیں کون روک سکتا ہے۔ اس وقت ہسپتالوں میں یرقان کی دوا عرصہ دراز سے غائب ہے۔ بازار میں مہنگے داموں دستیاب ہے جبکہ غلیظ گندا پانی پینے کی وجہ سے یرقان تیزی سے پھیلنے والا سب سے بڑا مرض بن چکا ہے۔ مگر کسی کو فکر نہیں۔ بیماریاں غریبوں کو گھیر رہی ہیں۔ حکمرانوں کو اپنی گھمن گھیریوں سے فرصت نہیں۔ ان حالات میں تبدیلی کا موسم تو دور کہیں کھو چکا ہے۔ حالات لگ رہا ہے آہستہ آہستہ کسی نئی تبدیلی کی سمت اشارہ کر رہے ہیں۔ جس کی زد میں آنے کے بعد شاید ہی کوئی بچ سکے۔ اسے انقلاب کہیں یا نیا عذاب۔ کوئی نہیں جانتا یہ کب اور کس طرف سے نازل ہو۔
سائنسدانوں نے انسانی خلیوں سے تھری ڈی دل بنا لیا
بے شک مبارکباد کے مستحق ہیں وہ سائنسدان جنہوں نے انسانی خلیوں سے دل بنا کر طب کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اب اس دل کی بدولت ہارٹ اٹیک کامستقل علاج بھی ممکن ہو سکے گا۔ اس طرح انسانی زندگی کے تحفظ کی مزید راہیں کھلیں گی۔ بے چارہ دل انسانی جسم میں یہ ایک ایسا عضو ہے جو ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔ اوپر سے ہے بھی عاشق مزاج۔ ایک لمحہ میں سختی پر آ جاتا ہے اور ایک ہی لمحے میں ٹوٹ جاتا ہے۔ بے قراری اور سرشاری دونوں اس کے ساتھ لگتی رہتی ہیں۔ آج کل تو بعض لوگوں کے دل بھی میڈ ان چائنا ہو گئے ہیں۔ چلنے پر آئیں تو برسوں چلتے رہتے ہیں ورنہ یکدم بے کار ہو جاتے ہیں۔ دل کا معاملہ بھی تو عجب ہے۔ کئی لوگ ایک بار جہاں دل لگ جائے وہاں زندگی گزار دیتے ہیں ورنہ اکثر لوگ تو کپڑوں کی طرح دل بھی موسم اور موڈ کے ساتھ بدلتے ہیں۔ اس لیے ان کے دل ٹوٹتے بھی جلد ہیں۔ ان لوگوں کے لیے تو یہ خبر خوشخبری ہو گی کہ اب ان کے لیے تھری ڈی دل بھی میسر ہوں گے۔ اس طرح وہ بار بار دل کے ٹوٹنے کے خوف سے آزاد ہو جائیں گے۔ اب معلوم نہیں یہ دل بھی اصلی دلوں کی طرح نازک ہوں گے یا نہیں بقول شاعر…؎
دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں
یا د اتنا بھی کوئی نہ آئے
اگر یہ نازک نہ ہوئے اور سخت دل ہوئے تو پھر دنیا سے کہیں یہ پیار محبت ختم ہی نہ ہو جائے جس کی وجہ سے اس کاروبار حیات میں ایک عجب چاشنی ہے رونق میلہ لگا رہتا ہے۔ سائنسدانوں کو اس طرف بھی توجہ دینا چاہئے۔
٭٭٭٭٭
سکھ یاتریوں کے بیساکھ میلے کے بہترین انتظامات پر پاکستان زندہ باد کے نعرے
پاکستان میں اقلیتی برادری کے مقدس مقامات کی جس طرح بہترین دیکھ بھال کی جاتی ہے ، اس کا تو بھارت میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سکھوں کی بڑی تعداد ہر سال اپنے اہم مقدس مقامات کی یاترا اور پنجاب کے روایتی میلوں میں شرکت کے لیے پاکستان آتی جاتی ہے۔ یہاں لاہور، ننکانہ صاحب، حسن ابدال ، ایمن آباد ، کرتار پور میں آ کر انہیں جو آسودگی کا احساس ہوتا ہے وہ تشکر کی زبان میں پاکستان زندہ باد کے نعروں کی شکل اختیار کرتا ہے۔ گزشتہ روز بھی بیساکھی میلے میں شرکت کے لیے آنے والی سکھ یاتریوں نے ننکانہ صاحب میں کھل کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ بیساکھی پنجاب کا روایتی ثقافتی میلہ ہے۔ جب پنجاب کے گھبرو جوان سج دھج کر …؎
ساڈی کنکاں توں مک گئی راکھی
او جٹا آئی ویساکھی…
کی تال پر بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ یہ گندم کی کٹائی سے فراغت کے بعد پنجاب میں میلے ٹھیلوں کی شروعات کا بھی سندیسہ لاتا ہے۔ ویساکھی میلہ پر اس بار دو ہزار سے زیادہ سکھ یاتری پاکستان آئے اور ننکانہ صاحب اور حن ابدال بھی گئے۔ اس بار تو ان کی خوشی دیدنی تھی انہیں یہ امید بھی ہے کہ اگلی بار جب وہ آئیں گے تو کرتار پور دربار صاحب کا راستہ بھی کھل چکا ہو گا۔ سکھ یاتری اپنے گرد واروں کے خوبصورت اور بہترین انتظام پر نہال ہیں۔ شاید اسی وجہ سے بھارت کرتار پور دربار صاحب کے کاریڈور کے مسئلے میں جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے۔
٭٭٭٭٭