ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے مشہور اور سبق آموز ناول مراہ العروس میں اصغری اور اکبری کی کہانی بیان کی تھی۔ اس کا بنیادی مفہوم ہی اس بنیادی فلسفے کے گرد گھومتا ہے کہ انسانوں کی بنیاد پر ہی تبدیلیاں آتی ہیں۔ اچھے انسان ہوں اچھی اور مثبت تبدیلی آتی ہے اور برے لوگ ہوں تب بری اور منفی تبدیلی آتی ہے۔ اچھوں سے اچھی تبدیلی آئے گی اور بروں سے بری تبدیلی ہی برپا ہوگی۔جناب علامہ اقبال نے بھی پتے کی بات بتائی تھی۔ فرمایا تھا …؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اور یہ بھی سمجھایا تھا کہ …؎
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک میں زیادہ تر نظام صدارتی ہے جیسا کہ امریکہ، چین، روس، فرانس کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ ترقی پذیر ممالک میں زیادہ تر پارلیمانی نظام رائج ہے۔ پارلیمانی نظام کی ایک آسانی یہ مانی جاتی ہے کہ عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس میں قانون سازی نسبتاً آسان ہے۔ یہ امر بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ پاکستان میں آنے والی صدارتی یا پارلیمانی حکومتوں میں آنے والے افراد، سیاسی خاندان اور خانوادے تبدیل نہیں ہوئے بلکہ اگر ان کے والدین کو کرپشن اور بدعنوانی کی علامتیں قرار دے کر نظام سے باہر کیاگیا تو ان کے بیرون ممالک سے اعلی تعلیم یافتہ بچوں نے ان کی جگہ سنبھال لی۔ گریجویشن کی تلوار سے ان کی سیاست کا سر قلم کیاگیا تو وہ نظامت کے زیادہ بااختیار منصب پر قابض ہوگئے اور وسائل کو بھرپور طورپر بروئے کار لائے۔ معین قریشی اور شوکت عزیز کی مثالیں بھی ہمیں نہیں بھولیں۔ غرض تجربے کرنے سے نتیجہ وہ برآمد نہیں ہوسکا جس کی شاید ہمیں تلاش ہے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ وہی دکھائی دیتی ہے جو بار بار کہی جاچکی، لکھی جاچکی اور ثابت ہوچکی ہے …؎
بیمار ہوئے تھے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ صدارتی نظام کے دلدادہ اور حامی خود محمد نواز شریف ہیں کہ انہیں وہ نظام اپنی طبیعت کے مطابق محسوس ہوتا ہے۔ صدارتی نظام شاید آصف علی زرداری کو بھی دل سے بھاتا ہو۔ صدارتی نظام کی خوبیاں اور ثمرات اپنی جگہ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ امریکی طرز پر صدارتی نظام لائیں گے تو کیا دو جماعتی نظام بھی ہمیں قبول ہوگا؟؟ زیادہ آبادی والے صوبے کے صدر منتخب ہونے کے اثرات کا مطالعہ بھی کرلیاجائے تو شاید مناسب رہے گا کیونکہ پہلے ہی بہت سے مسائل اس پہلو سے ہمیں کچوکے لگاتے آرہے ہیں۔
صدارتی نظام کی صورت میں پہیہ نئے سرے سے ایجاد کرنے والے مقولے پر عمل کرنا پڑے گا۔ وسائل کی تقسیم کے فارمولے سے لے کر اختیار کی تقسیم اور پھر سینٹ، قومی اسمبلی وغیرہ کے معاملات، دائرہ ہائے کار کے تعین کو طے کرنا پڑے گا۔ اتنے سیاسی انتشار میں یہ عمل کیسے ہوگا؟ پھر ایک بڑا امتحان خود عدلیہ کے ماضی کے فیصلوں کی صورت بھی موجود ہے۔ اس کا کیا ہوگا؟ کیا عدالت عظمی کے پاس جانا ہوگا؟؟بہ فرض محال یہ سب ہوبھی جائے اور صدر عمران خان بن بھی جائیں تو سوال یہ ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر ہی ہوں گے؟ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ہی ہوں گے؟ وزیراعلیٰ پنجاب جناب بزدار ہی ہونگے۔ مسئلہ تو پھر پھول کا ہے وہ کدھر جائے گا؟؟ مشرف بھی یہی کہتے سدھار گئے کہ …؎
مجھے خوف آتش گل سے ہے
کہیں اس چمن کو جلا نہ دے
اصل معاملہ نظام یا دستور اور آئین کا نہیں نیتوں کا ہے فرمایا آقا و مولا (صلعم )نے’’ عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔
حرف آخر! پاک فوج میں برگیڈئیرز تو سینکڑوں ہزاروں ہوں گے لیکن صاحب سیف وقلم برگیڈئیر دو ہی گذرے ہیں شہید صدیق سالک اور جناب صولت رضا’ جبکہ دو کرنیلوں نے بھی اپنا الگ الگ رنگ جمایا ہے کرنل محمد خان کھلکھلاتی تحریریں تو امر ہوچکی ہیں جو وقت اور زمان و مکان کی قید سے آزاد’ سدا بہار تازگی کی حامل ہیں۔ اسی طرح کرنل اشفاق کی سنجیدہ دفاعی موضوعات پر انکشافات سے بھرپورکتب جنٹل مین بسم اللہ ‘الحمد اللہ کی سلسلہ وار منظم ترتیب پاک فوج میں تجزیاتی داستان گوئی کی روایات کوآگے بڑھایا ہے۔خاکسار کو جناب صولت رضا سے ہمسائیگی کا شرف بھی حاصل ہے کہ ہم ایک ہی علاقے کی جڑواں بستیوں میں رہتے ہیں گذشتہ صبح ان کے کوچے سے گذر ہوا تھا انہیں یاد کیا اور دوپہر کو ان کا برقی گرامی نامہ مل گیا ان کی رائے سے کون کافر انکار کرسکتا ہے جناب صولت فرماتے ہیں:۔
’’اسلم خان صاحب آپ کو یاد ہوگا کہ زرداری صاحب کے دور میں صدارتی اور پارلیمانی نظاموں کا "حسین امتزاج " رائج تھا۔آپ کوئی نام رکھ لیں اصل مسئلہ گڈ گورنس ہے۔ اگر ملوکیت نے ہی رائج الوقت ہونا ھے تو اسمبلیوں میں "ہجوم عاشقاں " جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38