قرانِ مجید کی سورہ نمبر 103 "العصر" میں ارشاد باری تعالیٰ ہے " قسم ہے زمانے کی کہ بیشک انسان خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور حق پر رہنے اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے"
اس آیت پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ درج بالا بیان کردہ گھاٹے کے سودے کا بھی انسان خود ذمہ دار ہے۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کیلیئے برابر کے مواقع مہیا کیے ہوتے ہیں جو اس پر ایمان لاتے اور اسکے بتائے راستے پر چلتے ہیں دنیا میں بھی وہ کامیابی کا منہ دیکھتے ہیں اور آخرت میں بھی سرخرو ہوتے ہیں اسکے برعکس جو اس سیدھے راستے سے بھٹک جاتے ہیں رسوائی انکا مقدر بن جاتی ہے۔ اس حقیقت سے جْڑی ایک حقیقت اور بھی ہے کہ افراد کے مجموعے سے قوموں کا وجود تشکیل پاتا ہے۔ قرآن پاک میں درج اسی تھیوری پر غور کریں تو تاریخی حقائق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے خلفائے راشدین کے دور میں جب اس تھیوری پر سختی سے عمل کیا تو وہ ایک شاندار قوم بن کر اْبھری۔ حضرت عمرؓکے دور میں 2511665 مربع میل کا علاقہ اسلامی مملکت کے زیر سلطنت آ گیا اور مسلمانوں کے وجود سے قیصر و کسریٰ کے ایوان بھی کانپنا شروع ہو گئے لیکن جب مسلمان سورہ العصر میں بیان کردہ فلسفے سے دور ہوئے تو پھر بغداد اور قرطبہ کی تباہی کے تذکرے تو تاریخ کا حصہ بنے سو بنے آج کے دور میں پوری دنیا میں ہمارے مسلمانوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ بھی کسی سبق آموز داستان سے کم نہیں۔ اسی سباق میں پاکستان کے وجود کے حوالے سے واقعاتی شہادتوں کا تھوڑا سا جائزہ لیں اور غور کریں کہ اْس وقت کے لوگوں کی علیحدہ وطن کے حصول کیلیئے انکی قربانیوں کے صلے میں رَب العزت نے جب انہیں اس وطن کی نعمت سے سرفراز کیا تو پھر یہ بھی دیکھیں کہ ان لوگوں کے کردار کی وجہ سے 1965ء کی جنگ تک اس براعظم میں آپکی مملکت کس مقام پر کھڑی تھی اور رَب کائنات آپکو وہ تمام مواقع میسر کر رہا تھا جن کو اگر آپ صحیح معنوں میں تصرف میں لے آتے تو شائد آپ دنیا کی پہلی پانچ طاقتوں میں شمار ہوتے لیکن راقم کو یہ لکھتے شرم محسوس ہو رہی ہے جو کہ ایک تاریخی سچ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام اور حکمران دونوں ایسی rat race پر چل نکلے کہ آج اس براعظم کی سب سے پسماندہ معشیت ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ 1965ء کا ذکر آ گیا تو یادیں ماضی کے بند کواڑوں پر دستک دینے چلی آئی ہیں اور ایک عجیب مسرت سے سرشار کر رہی ہیں۔ گْو کہ اس وقت ہوش سنبھالنے کے ابتدائی ایام تھے لیکن اتنا ضرور تھا کہ جذبہ حب الوطنی کا بْوٹا جڑ پکڑ چکا تھا جسکے میٹھے پھل کی چاشنی سے اْس وقت بھی آشنا تھے لیکن آجکل کے مادہ پرستی کے دور میں یہ چاشنی پچھلے مہینے اس وقت پھر منہ میٹھا کر گئی جب 1965ء کی طرح بھارت نے ایک دفعہ پھر میرے وطن کو غلیظ اور میلی آنکھ سے دیکھا۔ یقین جانیئے 27 فروری کو جب پاکستان نے بھارت کے دو جنگی جہاز گرائے اور اس خبر پر جسطرح ملک کا بچہ بچہ سینا تانے بے خوف و خطر گلیوں اور سڑکوں پر ایک عجیب جوش اور ولولے کے ساتھ مستی کے عالم میں باہر نکل آیا دل کر رہا تھا کہ کاش وقت تھم جائے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو یہ گھڑیاں یہ لمحات یہ جذبے یہ یقین کسی کینوس پر نقش ہو جائے کہ آئندہ آنے والی نسلیں دیکھ سکیں کہ مسلمان کو جب کوئی غیر مذہب للکارتا ہے تو وہ کس طرح اپنی زندگی سے بیگانہ ہو کر صرف اور صرف اپنے مذہب اور اپنے ملک کیلیئے سوچتا ہے۔ دل بہت خوش تھا کہ جہاں بھارت خاصکر مودی سرکار کی نادانی کی وجہ سے ایک طرف میری قوم متحد ہوئی ہے تو دوسری طرف خود بھارت کے اندر ایک شعور زور پکڑتا نظر انا شروع ہوا ہے کہ بھارت کے جارحانہ عزائم خود انکے لیئے کیسے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں اور اس شعوری سوچ کا دائرہ عالمی سطح پر بھی نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ بھارت کے جارحانہ عزائم پر کوئی قدغن ہونی چاہیئے لیکن انتہائی دْکھ اور افسوس کے ساتھ راقم یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہے کہ میری یہ خوشی صرف چار دن کی چاندنی ہی ثابت ہوتی نظر آ رہی ہے کیونکہ جن زعماء سے تدبر کی اْمید کی جاتی ہے وہ ایک دفعہ پھر اپنے گندے کپڑے لیکر پارلیمان کے ایوانوں میں پہنچ گئے ہیں۔ راقم اس سلسلے میں نہ تو اپوزیشن کو موردِ الزام ٹھہرائے گا اور نہ حکومتی بینچوں کو لیکن اتنا ضرور کہیے گا کہ اپوزیشن کے کسی راہنماء کی طرف سے کچھ مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر اگر کوئی شْرلی چھوڑی بھی گئی تھی تو حکومتی بڑوں سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ جلتی پر تیل نہ ڈالتے اور ایک ایسا مسئلہ جو پاکستان کیلیئے flash point بنا ہوا ہے اسے مزید شعلوں کی نظر نہ کرتے۔ مجھے یہاں پر ایک محاورہ بہت یاد آ رہا ہے " باندراں نوں بنارسی ٹوپیاں" اور کچھ نہیں کہونگا بس اتنا کہنے پر اکتفا کرونگا کہ نادانوں کی نادانیوں کی بدولت ایک جیتی جنگ ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے۔ یاد رہے قوموں کی زندگیوں میں ایسے موقعے کبھی کبھار آتے ہیں۔ نادانیوں کی بات کرنے چل پڑا تو بات لمبی ہو جائیگی جس کیلیئے ایک علیحدہ کالم کی ضرورت پڑے گی۔ سردست محترم عمران صاحب کی اس بات پر کہ اگر ایف بی آر نے اپنے آپکو ٹھیک نہ کیا تو ہم ایک نئی ایف بی آر بنا دینگے صرف اتنا عرض ہے کہ یہ ایک ادارہ ہے بیوی نہیں کہ بات بن گئی تو ٹھیک ورنہ نئی لے ائیں گے۔ ایسی نادانیوں پر اگلے کالم میں بات ہو گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024