سر ! یقیناً قوم آپ کی پشت بان ہے
13 اپریل جی ایچ کیو میں فوجی افسروں میں اعزازات تقسیم کرنے کیلئے تقریب منعقد ہوئی مہمان خصوصی سپہ سالارجنرل قمر جاوید باجوہ تھے اس موقع پر آرمی چیف کی تقریر بہت اہم تھی ان کا کہنا تھا کوئی بھی میڈل شہدا کی قربانی کا نعم البدل نہیں اور نہ لواحقین کے غم کو کم کر سکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے آج ہم امن کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ ان ہی قربانیوں کی وجہ سے پاکستان میں دن بہ بدن امن آ رہا ہے۔ آرمی چیف نے کہا جب بھی بیرون ملک جاتا ہوں لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ دہشت گردوں نے پوری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے اور ان کیخلاف اگر کوئی کامیابی کی مثال ہے تو صرف پاکستان ہے‘ جس نے اپنے علاقے سے دہشت گردوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا ہے۔ پاکستان کے پاس ایسی کیا خصوصیت ہے جو دیگر ملکوں کے پاس نہیں ؟ میں ان لوگوں کو جواب دیتا ہوں کہ جب تک پاکستان میں ایسی مائیں‘ بہنیں‘ بیویاں اور بیٹیاں رہیں گی جو اپنے بیٹوں ‘ بھائیوں ‘ شوہروں اور والد کو مادر وطن پر نچھاور کرنے کے لئے بھیجتی رہیں گی اس وقت تک پاکستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ یہی ہمارے ہیرو ہیں جو قومیں اپنے ہیروز کو بھلا دیتی ہیں وہ مٹ جایا کرتی ہیں۔ پاکستان آہستہ آہستہ ترقی اور امن کی جانب بڑھ رہا ہے مباداکہ جب ملک میں مکمل امن آ جائے تو ہم شہداءکی قربانیوں کو بھول بیٹھیں ‘ قوم کی تاریخ میں یاد رکھنے کی صلاحیت بہت کم ہے لیکن ہم کبھی بھی شہداءکی قربانیوں کو فراموش نہیں کریں گے۔ جنرل باجوہ نے زور دے کر کہا کہ کچھ لوگ باہر اور اندر سے سالمیت کے درپے ہیں۔ یہ چاہے کچھ بھی کر لیں جب تک پاک فوج کے پیچھے قوم کھڑی ہے۔ پاکستان کو کچھ نہیں ہو سکتا اور اﷲ کے فضل سے پاکستان مشکل وقت سے نکل آیا ہے اور ملک میں اچھے دن آنے والے ہیں۔ بعدازاں اسی دن آرمی چیف پشاور گئے اور ان سے فاٹا اور پختونخوا کے وفد نے بھی ملاقات کی۔ اس وفد میں ارکان پارلیمنٹ ‘ کاروباری شخصیات، اساتذہ اور وکلاءشامل تھے اس موقع پر آرمی چیف نے دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ کوئی بھی ریاست مخالف اور انجنیئرڈ مظاہرے دہشت گردی کیخلاف حامل ہونیوالی کامیابیاں ختم نہیں کر سکتے۔ فاٹا کے پرامن شہریوں کی مشکلات کا احساس ہے۔ جنرل باجوہ نے زور دے کر یہ بات بھی کہی کہ دہشت گردی کیخلاف سب سے زیادہ قربانیاں خیبر پختونخوا اور فاٹا نے دیں اور ہم بھی امن کی بحالی کے لئے ہر ممکن کوششیں کر رہے ہیں اور بالخصوص فاٹا کے لوگوں کی محرومیوں کا نہ صرف احساس ہے بلکہ ترجیحی بنیادوں پر ان کی فلاح کی کوشش کر رہے ہیں۔ آرمی چیف نے جو کہا وہ سو فیصد درست ہے۔ اب جن اندرونی اور بیرونی سازشوں کا انہوں نے ذکر کیا اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ایک مختصر عرصہ میں فاٹااور خیبرپختونخوا میں ایم کیو ایم طرز کی ایک تنظیم بنی ہے جس کا پہلے محسود تحفظ موومنٹ اور اب پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نام ہے اس کے سربراہ منظور احمد پشتین اور اس کے اہم ترین رہنما عمر دا¶د خٹک ہیں۔ اس تنظیم کا ایک اہم نعرہ ہے دہشت گردی۔ پیچھے وردی ۔ عمر دا¶د خٹک گزشتہ دو سال سے بھارت میں ہے۔ پاکستان مخالف بیان بازی کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ ممکن ہے منظور پشتین نسبتاً بہتر آدمی ہو مگر عمر دا¶د پر تو کوئی شک ہی نہیں اوپر سے بھارتی میڈیا اس کو بھرپور کوریج دے رہا ہے۔ یہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی کی تحریکوں کو جعلی قرار دیتا ہے۔ اس تنظیم کے لوگ زبان اور کلچر کی بنیاد پر خیبر پختونخوا کے نوجوانوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر قابل تحسین ہے یہ نوجوان نسل جو ”را“ کے ایجنٹوں اور نفرت پھیلانے والے دہشت گردوں کے مذموم ارادوں کو جان کر
ان کا ساتھ نہیں دے رہی۔ مسلم لیگ ”ن“ نے سینیٹ کے انتخابات میں ڈپٹی چیئرمین کے لئے جس امیدوار عثمان کاکڑ کا ساتھ دیا وہ بظاہر محمود اچکزئی کا آدمی ہے جس طرح کی وہ تقاریر کرتا ہے اسے کوئی بھی محب وطن پاکستانی برداشت نہیں کر سکتا اس کی یہاں پر تقاریر اور عمر دا¶د خٹک کی بھارت میں تقاریر بالکل ایک جیسی ہیں جس کی بنیاد پر اس نتیجہ پر پہنچنا مشکل نہیں کہ پاکستان کی سالمیت کیخلاف جو لاوہ پک رہا ہے اس کے تانے بانے کہاں پر ملتے ہیں؟ چند دن قبل احتساب عدالت اسلام آباد کے باہر میاں نواز شریف کے دائیں بائیں محمود اچکزئی اور میر حاصل بزنجو کھڑے تھے۔ عثمان کاکڑ کی بے مقصد گفتگو کے پیچھے محمود اچکزئی ہیں۔ بالکل اسی طرح منظور پشتین نے پشاور یونیورسٹی کے باہر جلسہ کا اعلان کیا جسے دفعہ 144 کے نفاذ کی وجہ سے روک دیا گیا۔ اس کی مذمت کرنے والوں میں بھلا کون لوگ شامل تھے؟ آپ سن کر حیران ہوں گے کہ ملالہ یوسف زئی‘ محمود اچکزئی‘ اسفند یار ولی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی ....! اب آپ سب کڑیاں ملائیں تو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے والے کون ہیں؟ جواب میں چودھری شجاعت حسین نے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی لاہور میں منعقد کی تو اس میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ مہمان خصوصی تھے جنہوں نے ایک سچے پاکستانی کی حیثیت سے زبردست تقریر کی۔ اب مختصر تجزیہ بیرونی سازشوں کا! میمو گیٹ کیا تھا ؟ اس کی حقیقت کیا تھی۔ حسین حقانی کس کیلئے کام کر رہا ہے؟ اسے 10 مارچ کو واشنگٹن پوسٹ میں مضمون لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ جس وقت حسین حقانی امریکہ میں پاکستانی سفیر تھے اور درحقیقت سی آئی اے اور پینٹاگون کیلئے کام کر رہے تھے تو اس وقت پاکستانی سفارخانے میں ملٹری اتاشی کون تھے ؟ یہ ایک دلچسپ اور لمبی کہانی ہے۔مختصراً اس وقت ملٹری اتاشی بریگیڈئر نذیر احمد بٹ تھے انہوں نے اپنے سفیر پر خفیہ نگرانی رکھی ہوئی تھی جس کی تفصیل وہ کسی بھی سفارتی طریقہ کے بجائے ذاتی (ہینڈ رٹن) خطوط کے ذریعہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کو بھیجا کرتے تھے۔ یہ تمام انکشافات بڑے خوفناک تھے۔ جب دونوں جرنیلوں نے یہ انکشاف سابق صدر کے سامنے رکھے تو ہر طرف پریشانی پھیل گئی۔ اتفاق سے اب وہی نذیر احمد بٹ کور کمانڈر پشاور ہیں ۔ میجر جنرل عابد اب وہ بھی اتفاق سے ایف سی کے سربراہ کی حیثیت سے پشاور میں ہیں۔ امید ہے کہ یہ دونوں جنرلز اٹھنے والی دہشت گردی کی اس نئی لہر کا نہ صرف قلع قمع کریں گے بلکہ جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیں گے۔ اب امریکہ‘ بھارت اور افغانستان کیا چاہتا ہے اس پر ہلکی سی نظر: یہ چاہتے ہیں کہ افغان پاکستان بارڈر سیل نہ ہو کیونکہ یہ بھارت کے حق میں ہے کہ وہ آزادی اور کھلم کھلا انداز میں پاکستان میں دراندازی کر سکے۔ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کو ختم کرے کیونکہ اس میں بھی بھارت کی بھرپور خواہشات شامل ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ سی پیک کا خاتمہ کر دیا جائے کیونکہ یہ بھارت کو قبول نہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ ان 29 این جی اوز کو بحال کیا جائے جن پر چودھری نثار علی خان نے بحیثیت وزیر داخلہ پابندی لگائی تھی تاکہ وہ پہلے کی طرح کھلے ڈھلے انداز میں پاکستان میں لبرل ازم پھیلا سکیں اور اپنی من پسند ایکٹیویٹی کر سکیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ حافظ سعید احمد کا خاتمہ کر دیا جائے ان کے ہیومن رائٹس شعبوں کو مت کام کرنے دیا جائے کیونکہ وہ بھارتی دہشتگردوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ 30 لاکھ افغانی پاکستان میں موجود رہیں تاکہ بنیادی طور پر کم وسائل والے پاکستان کیلئے بوجھ بنے رہیں اور پاکستان ”بھیک“ مانگتا رہے۔ یہ سب کچھ میاں نواز شریف اور ان کے حواری تو کر سکتے تھے مگر ریاست کو یہ چیزیں قبول نہیں اسی لئے جنرل باجوہ نے اندرونی اور بیرونی مسائل کا درست ادراک کیا۔ جنرل صاحب آپ کا ہر قدم جو ملک کی سالمیت کیلئے اٹھے گا آپ قوم کو اپنے پیچھے کھڑا پائیں گے اور انشاءاﷲ کامیابی آپ کی یعنی ہماری سب کی ہو گی۔