جنوبی پنجاب کے تھانو ں میں انصاف ناپید !
سجاد اظہر پیرزادہ sajjadpeerzada1@hotmail.com
جنوبی پنجاب کو اِن دنوں، ایک صوبہ بنانے کی تحریک عروج پر ہے۔ اِس تحریک کے پیچھے بہت سے عوامل ایسے بھی ہیں،جن کا براہ راست تعلق ناانصافی اور بڑھتے ہوئے جرائم پر کنٹرول نہ پانے سے ہے۔یہ بڑھتے ہوئے جرائم، جنوبی پنجاب کے اُن تمام علاقوںمیں دیکھنے کو ملتے ہیں،جن کے عوام کے نصیب میں سوائے تعمیر و ترقی کے دعوﺅںکے کچھ نہیں آیا۔”نوائے وقت کرائم کارنر “نے،جنوبی پنجاب میں قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں، ناانصافی کے ترازومیں تُلتے عام لوگوں کی حالت زار جاننے کے لئے سروے کیا،اِس سروے کے مطابق جنوبی پنجاب کے عوام تھانوں میں انصاف نہ ملنے سے پریشان ہیں،زیادہ تر لوگوں کی زندگی اجبیرن تو ، اِس بات پر ہے کہ جرم کا کوئی بھی واقعہ ہونے کے بعد پولیس موقع پر نہیں پہنچتی، اور اگر اتفاق سے پولیس موقع پر پہنچ بھی جائے، تو اِس قدر نااہلی برتی جاتی ہے کہ اصل ”وارداتیوں“کو چھوڑ کربے گناہوں کو ذلت کے ساتھ اُٹھا لیا جاتاہے۔جنوبی پنجاب کے لوگوں کو اِس ذلت سے اٹھائے جانے کا آنکھوں دیکھا حال ہماری نگاہوں کے سامنے بھی آیا، اور یہ بھی دیکھا کہ پولیس کے بعض افسرمجرموں کو کس طرح چھوڑ کر سارا ملبہ بے قصور پر ڈال کر” ایم بی بی ایس“ کرتے ہیں۔
پولیس کے اکثر افسروںکے بارے میں،جنوبی پنجاب کے لوگوں کو دوسرا دُکھ مظلوم کو انصاف دینے کی بجائے ظالم کا ساتھ دینے سے تعلق رکھتا ہے۔وہاڑی کے علاقے گگو منڈی میں رہنے والی بشیراں بی بی نے ہمیں بتایا کہ ایس ایچ او گگو منڈی خالد گورایا اور گگو منڈی کے ہی تھانے سے تعلق رکھنے والے ایک ایس آئی شفیق نے اِن کے ساتھ ذلت آمیز سلوک اُس وقت کیا ، جب اِن کو علاقے کے کچھ غنڈوں نے مارا اوروہ یہ معاملہ تھانہ گگومنڈی پولیس کے پاس لے کر گئیں، لیکن اب قریب قریب ایک مہینہ ہونے والا ہے،پولیس نے نہ ہی ایف آئی آر کاٹی ہے اور نہ ہی اسے انصاف فراہم کیا گیاہے، گگومنڈی پولیس اسے تھانوںمیں چکر لگواتی ہے،کبھی ایس ایچ او بلاتا ہے تو کبھی ایس آئی شفیق، بوڑھی عورت کا کہنا ہے کہ یہ لوگ مجھے 50بار تھانے کے چکر لگوا چکے مگرمیں جب بھی تھانے گئی تو نہ ہی ایس ایچ او ملا اور نہ ہی ایس آئی، شفیق مجھ پر صلح کیلئے دباﺅ ڈالتا ہے، اور کہتا ہے کہ جس نے تمہیں مارا ہے ان کے ساتھ صلح کرلو ورنہ یوں ہی دَر دَر بھٹکتی رہوگی۔
بوریوالا، بھکر، بہاولنگر، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، خانیوال، حاصل پور، لودھراں، لیہ، ملتان، مظفرگڑھ،راجن پور، رحیم یار خان، وہاڑی، میلسی و احمد پور شرقیہ میں یہ منظر عام دیکھا کہ یہاں انصاف صرف انہی مظلوموںکو ملتاہوگا ، جن کے ساتھ ابھی ظلم نہیں ہوا ہے!۔جن کے سر پہ دولت کی چھاﺅں ہوتی ہے،وہ ظالم ہمیشہ باعزت بری ہوکر باہرنکلتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں ایک نئی روائت سَر اٹھارہی ہے،یہ روایت ہے، شہریوں کے غائب ہونے کی۔پہلے تو دیکھا جاتا تھا کہ شہریوں کا اغوائ، کسی نے مال دار اسامی سے پیسے بٹورنے کیلئے کیا ہے، اس دورے کے دوران مگر یہ سننے میں آیا ہے کہ اب کی باراغواءکرنے والے ’کوئی اور‘ ہیں۔ملتان سے اسماعیل نام کا شہری غائب ہے تواحمد پور شرقیہ کا طیب ، عرصہ ہو ا پلٹ کر گھر نہیں آیاہے،وہاڑی سے سلیم نام کے شخص کی ماں اپنے بچے کا چہرہ دیکھنے کو ترس رہی ہے تو جنوبی پنجاب کے ہی ایک رضا نامی نوجوان کے انتظار میں اس کے گھروالوںکی آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔
ملک میں جاری دہشت گردی و دیگر مختلف سنگین جرائم جیسے واقعات و سانحات سے اگر ایک طرف شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں تودوسری طرف جنوبی پنجاب کے اکثر علاقوںمیں اکثر لوگوںمیں یہ تاثر جڑ پکڑ گیا ہے کہ پولیس انکی عزت نفس، مال و زندگی کے تحفظ کے متعلق کچھ نہیںکر رہی۔یہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ پولیس افسران صرف لاہور کوہی محفوظ بنانے کے لئے دن رات عملی کوششوںمیں مصروف ہےں۔جنوبی پنجاب میںقانون نافذ کرنےوالے اداروں کے ساتھ ساتھ پیرو اورڈولفن فورسز کا قیام امن و امان کے قیام کے لیے اہم کردار ادا کرے گا۔پولیس قیادت کو جنوبی پنجاب کے علاقوں میں پیرو اور ڈولفن فورسزکے قیام کے دوران یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ تھانوںمیں لوگوں کے ساتھ ہوتے قابل مذمت سلوک کا خاتمہ کیا جائے۔
جنوبی پنجاب کے لوگوں میں پولیس کے بارے میں یہ احساس نہیں پایا جاتاکہ پولیس ان کی جان و مال کی حفاظت کے لئے ہے۔ داخلی و خارجی راستوں پر قائم ناکوں پہ شہریوںکی توہین بھی اس بات کا ایک ثبوت ہے،جہاں پر اہلکار اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے شہریوں کی عزت نفس کی بحالی کے دعوﺅں کے ساتھ، شب و روزاس لئے ڈیوٹی پر موجود ہیںکہ لوگ بلا خوف و خطر اپنی بے عزتی کروانے کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ ناکے اس لئے ہیں کہ کوئی شہری اگر اپنے آپ کو عزت دار سمجھنا شروع کر دے تو وہ پولیس ناکوں سے گزرکر اپنی تسلی کر لے۔
جنوبی پنجاب کے عوام محدودوسائل میں، جس طرح اپنے بڑے خاندانوں کی کفالت کر رہے ہیں،بالکل پنجاب پولیس بھی اسی طرح محدودوسائل میں اپنی ڈیوٹی نبھارہی ہے،حالات خراب مگر اُس وقت ہوتے ہیں، جب کسی بھی فریق کی طرف سے محدود وسائل کو ناجائز طریقے کے ساتھ لامحدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جرم ہمیشہ اپنے وجود میں اُس وقت آتاہے، جب قانون کے حرکت میں نہ آنے کے امکانات موجود ہوں۔جنوبی پنجاب کے علاقوںمیںقانون کے حرکت میں نہ آنے کے واضح امکانات پائے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جرم گھٹنے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔جب پولیس کے ہی اکثر اہلکاروں کی مددمظلوموں کی بجائے ظالموں کے حق میں ہو، تواحساس محرومی کیسے ختم ہوگی؟پولیس کی کالی بھیڑوںسے عوام تنگ ہیں،مظلوم انصاف کے لئے دربدر ہیں، آر پی او بہاولپوروسیم سیال کہاں ہیں؟
بے شک پولیس کے پروفیشنل افسر‘پنجاب پولیس کی نئی سائنٹفک سوچ پر عمل کرتے ہوئے جرائم کنٹرول کرنے کی اپنی ڈیوٹی نبھائیں‘ یہ بات بھی لیکن ضرور مد نظر رکھی جانی چاہئے کہ جرائم کنٹرول کرنے کیلئے مظلوم کی حق رسی ہونا اس کو انصاف ملنا ضروری ہے۔ شہریوں کی عزت و دادرسی جیسے اقدامات‘کرائم کو کنٹرول کرنے میں پولیس کے معاون و مددگارہی ثابت ہوتے ہیں۔