ٹرمپ کو شام میں طویل مدت کیلئے فوج رکھنے پر راضی کر لیا: فرانسیسی صدر
ماسکو ‘ پیرس‘واشنگٹن ( ایجنسیاں +اے ایف پی )روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ اسد انتظامیہ کے خلاف آپریشن "غیر قانونی" اور" ناقابل قبول" ہے۔ماسکو میں 26 ویں خارجہ پالیسی اجلاس سے خطاب میں لاروف نے کہا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی طرف سے شام میں اسد انتظامیہ کے خلاف حملے کی وجہ "مضحکہ خیز" ہے۔ شام میں اسد انتظامیہ کے خلاف آپریشن "غیر قانونی" اور" ناقابل قبول" ہے۔ فرانس کے صدر میکرون نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو راضی کر لیا ہے کہ وہ شام سے اپنی فوج کو وطن واپس نہ بلائیں اور انھیں شام میں 'طویل مدت' کے لیے تعینات رکھیں ۔ٹی وی انٹرویو میں فرانس کے صدر نے مزید کہا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کو کہا ہے کہ شام پر حملوں کی تعداد محدود رکھیں۔صدر میخواں نے کہا کہ وہ بشمول روس تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کرنے کے خواہشمند ہیں تاکہ شام کے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈا جا سکے اور اس سلسلے میں وہ اگلے ماہ روس کے دورے پر جائیں گے۔میکرون کے بیان کے بعد وائٹ ہائوس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے کہا کہ 'امریکی مشن میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ صدر اس بارے میں واضح ہیں کہ امریکہ جتنا جلد ممکن ہو وہاںفوجکو نکال لے ۔تاہم انھوں نے کہا کہ امریکہ دولت اسلامیہ کو مکمل طور پر ختم کر دینے کا پابند ہے تاکہ وہ واپسی نہ کرسکے۔اسرائیلی وزیر دفاع لائبر مین نے کہا روس شام میں ہماری کارروائیوں کو محدود نہیں کر سکتا ۔ کوئی ملک ہمیں نہیں روک سکتا ادھر روسی سفارتخانے سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی انکوائری کرنیوالی ٹیم کے کام میں مداخلت نہیں کرینگے ۔ رپورٹ کے مطابق سکیورٹی وجوہ پر دوماہ تک رسائی نہ ملنے پر او پی ڈبلیوس کے متن کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی انکوائری نہ کر سکا۔ برطانوی سفارتخانے کے مطابق روس اور شام نے ٹیم کو ابھی اجازت نہیں دی۔ادھر ترکی نے کہا ہے فرانسیسی صدر روس کیساتھ ہماری پارٹنر شپ نہیں توڑ سکتے ادھر برطانوی وزیر خارجہ بورس جانین نے کہا ہے شام پر امریکہ ‘ یورپی ممالک کے حملے کے باوجود شام جنگ جاری رہے گی۔ادھر شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کی خود مختار تنظیم او پی ڈبلیو سی کے نمائندے ملک کے دارالحکومت شام میں موجود ہیں اور وہ دوما میں ہونے والی مبینہ کیمیائی حملوں کی تحقیق کریں گے۔ توقع تھی کہ تحقیق کار ہفتے یا اتوار کو دو ما روانہ ہوں گے لیکن اس بارے میں ابھی تک کوئی مزید معلومات نہیں آئی ہیں۔روس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دوما میں کسی قسم کے کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے کوئی ثبوت نہیں ہیں اور یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ تفتیش کاروں کے جواب دینے سے قبل حملے کیوں کیے گئے ۔ادھر تفتیش کاروں کی تنظیم اوپی ڈبلیو سی نہ یہ طے کرے گی اور نہ ہی اس بارے کوئی اعلان کرے گی کہ مبینہ کیمیائی حملے کس نے کیے ۔دوسری جانب امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے شام پر حملے کے حوالے سے روس نے کہا ہے کہ شام پر مزید میزائل حملوں سے بین الاقوامی تعلقات میں افراتفری کی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ادھر شامی صدر بشار الاسد نے روسی ماہرین قانون کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ملک پر مغربی ممالک کی جانے سے میزائل حملہ جارحیت تھی۔ صدر بشار الاسد کے دفتر نے ان کے حوالے سے کہا ہے کہ شام کے خلاف سہ ملکی جارحیت کے ساتھ ساتھ غلط معلومات کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ٹرمپ نے کہاہے شام میں کیے گئے میزائل حملے کے حوالے سے انہوں نے 'مشن تکمیل کو پہنچا' کے الفاظ صحیح معنوں میں استعمال کیے تھے۔اس سے قبل اپنے ایک بیان میں ٹرمپ نے بتایا تھا کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس نے دمشق کے شہریوں پر حملہ نہیں کیا، بلکہ صرف شام میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کی مشتبہ تنصیبات پر میزائل حملے کیے۔ انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اب یہ کہا جائے گا کہ یہ ایک فوجی اصطلاح ہے جو بڑے حملوں کے لے استعمال کی جاتی ہے، ماضی کے دور سے نکل آئیں اور اس لفظ کا استعمال کریں۔ ارکان نے صدر ٹرمپ پر برہمی کا اظہار کیا اور شام پر کیے گئے میزائل حملوں کو غیر آئینی قرار دیا، جبکہ اکثر ری پبلکن ارکان نے ٹرمپ کے اس اقدام کو سراہا۔ امریکی ریاست ورجینیا کے سینیٹر ٹم کائن کا کہنا تھا کہ 'آج شام پر میزائل حملہ ہوا ہے، اگلی بار ایران یا شمالی کوریا پر حملہ کرنے سے انہیں کون روکے گا؟ ڈیموکریٹ رہنما نینسی پلوسی نے کہا کہ ٹرمپ شام کے حوالے سے کانگریس کو مزید جامع حکمت عملی پیش کریں اور قانون سازوں کی منظوری حاصل کریں۔سنییٹ کے اقلیتی رہنما چک شومر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو شام کی جنگ میں مداخلت کے حوالے سے احتیاط کرنی چاہیے۔ جان مکین نے کہا شام میں مزید میزائل حملے ہونے چاہئیں۔ ممکن ہے روسیوں نے کیمیائی حملے کی جگہ سے ثبوت ختم کر دئیے ہوئے۔ ترجمان وائٹ ہائوس نے کہا روس پر تازہ پابندیوں کا ابھی فیصلہ نہیں کیا۔