نااہلی
سیاست اور سیاستدانوں کی زندگی میں انہونیاں، سانحے اور حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف واضح مثالیں ہیں۔ نواز شریف تاحیات نااہل ٹھہر چکے ہیں لیکن اُن کی سیاست فکر سوچ اور نظریہ نااہل نہیں ٹھہرا۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پلانے سے اس کا نظریہ درگور نہیں ہوا تھا۔ منصور بن حلاج سولی چڑھا دئیے گئے لیکن ان کی فکر اور نام باقی ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے اہم سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ کسی شخص کو عوام ہی لیڈر بناتے اور سر پر بٹھاتے ہیں، اس کے نعرے لگاتے اس کے لیے جلسہ گاہوں کو بھرتے ہیں، اس کی گاڑی کو پھول کی پتیوں سے لاد دیتے اور اس کے آگے پیچھے دیوانہ وار دوڑتے ہیں اور پھر عوام ہی سڑکوں پر ”گوگو“ ”مردہ باد“ اور ”کتا“ تک کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ بحث اس بات کی ہے کہ نگاہِ عدل میں کوئی لیڈری کے لیے نااہل ٹھہرے توکیا عوام اُس کی نااہلی قبول کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر نواز شریف 22 کروڑ عوام کے بالاتفاق رہنما ہیں تو پھر وہ کبھی بھی اپنے دلوں سے نہ نکالیں گے نہ اُتاریں گے۔ یہ قمیض ہے جو اتاری اور پہنی جاتی ہے لیکن دل میں جو بس جائے وہ اُترتا نہیں اور جو اُتر جائے وہ کسی متوفی کی طرح گھر کا واپس رُخ نہیں کرتا۔ اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کرے گا کہ قیادت صادق اور امین ہونی چاہئے۔ لوگ کسی پیر و مرشد کی بیعت ان کا عمل نیکنامی اور شہرت دیکھ کر کرتے ہیں لیکن بعدازاں اگراُن کا کوئی فعل ان کے قول سے مطابقت رکھتا نہیں دکھائی دیتا تو وہ اس پیر خانے کو چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح عوام کے سامنے حقائق سامنے لائے جائیں تو وہ تذبذب کا شکار ضرور ہوتے ہیں اور اپنی سوچ اور رائے میں تبدیلی کی طرف آتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیڈر کے خلاف دن رات برائیاں خامیاں پراپیگنڈہ سُن کر بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔ جیالے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو کہتے ہیں، جیالے نسل در نسل جیالے چلے آ رہے ہیں۔ بھٹو کو اُن کے دلوں سے کوئی نہیں نکال سکا۔ بھٹو کو مقدمہ قتل میں پھانسی دی گئی لیکن نگاہِ عدل میں قاتل قرار پانے کوان کے شیدائیوں نے قاتل تسلیم نہیں کیا، وہ ان کی پھانسی کو آج تک عدالتی قتل قرار دیتے ہیں۔ اس ملک کے عوام کی لیڈروں کے لیے سوچ اور والہانہ پن ایسا ہے کہ وہ ”قاتل“ کو قاتل نہیں مانتے تو صادق اور امین نہ ہونے والے کو جھوٹا اور خائن کیسے مان سکتے ہیں۔ نواز شریف پر بھی دو آنکھیں جمی ہیں ایک عدل کی آنکھ جس سے اُسے نواز شریف کا وہ چہرہ نظر آ رہا ہے جو اس کے پرستاروں کو دکھائی نہیں دے رہا۔ دوسری آنکھ عوام کی ہے جو ظاہری آنکھ ہے جو وہ نہیں دیکھ رہی جو چشم باطن دیکھ چکی ہے۔ صاحبِ کشف کی آنکھ چشمِ باطن ہوتی ہے۔ صاحبِ باطن اور عام آدمی میں فرق تو ہوتا ہے قرآن کے الفاظ ملاحظہ ہوں: کیاجو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟ اور اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ہوسکتے، اور نہ اندھیرے اور نہ روشنی اور نہ سایہ اور نہ دھوپ اور نہ زندے اور نہ مردے برابر ہوسکتے ہیں۔ انکشافات کی ساری داستانیں محض افسانے تو نہیں ہو سکتے۔ کون ہے جو اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کرتا سرکاری افسر کے دفتر کے باہر کھڑا نائب قاصد اور گارڈ بھی چاہے تو روک کر آپ کا وقت تو ضائع کرسکتا ہے۔ اختیارات ہوں تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ جائز استعمال ہو رہے ہیں یا ناجائز۔ گورکن کو اتنا اختیار حاصل ہے کہ وہ قبرستان میں بظاہر جگہ نہ بھی ہو اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے قبر بنا دیتا ہے۔ وارڈن کا اختیار ہے چالان کر دے یا چھوڑ دے آپ کسی سرکاری عہدے پر فائز شخص پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگا کر اس کا سر چکرا سکتے ہیں۔ نیب طلب کر لے تو اس کا دل ڈوب بھی سکتا ہے۔ تاحیات نااہلی نواز شریف سیاست کے خاتمے کا آغاز ہے، فیصلے کے باوجود ن لیگ نواز شریف کی قیادت میں ملک کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر زندہ رہے گی؟ عدالتی فیصلوں پر تبصرہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن ججوں پر رائے زنی نہیں کی جا سکتی۔ پارلیمنٹ کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے نواز شریف کو پہلے نااہلی اور پھر تاحیات نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاست کو عدالتوں میں لے جانے کا ذمہ دار کون ہے؟ پارلیمنٹ کو اپنی حیثیت منوانی چاہئے تھی۔ نواز شریف کی واپسی کا راستہ فی الحال بند ہو چکا ہے لیکن ان کا بیانیہ سخت ہوتا جائے گا۔ آرٹیکل 63-62 ختم کرنے کا موقع نواز شریف نے خود ضائع کیا۔ اپوزیشن نے آرٹیکل 62 ون ایف ہٹانے کا کہا تو انہوں نے نظرانداز کر دیا۔ اگر نااہلی فیصلے کو انتقامی کارروائی سمجھا جائے تو کیا عدالت عظمیٰ منتقم ہے؟ عدالت کسی چور ڈاکو قاتل کو سزا سُنا کر انتقام لیتی ہے یا انصاف کرتی ہے یہ بات بھی کیسے درست ہو سکتی ہے کہ عدالتی فیصلے نے نواز شریف کو ملک و قوم کی خدمت سے روک دیا ہے۔ عبدالستار ایدھی نے ساری زندگی ملک و قوم کی خدمت کی۔ کیاکسی عدالت نے انہیں خدمت سے روکا؟ اگر ملک میں سارے صادق اور امین ہوتے یا ہیں تو پھر نیب بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ بغیر کسی الزام کے نیب کسی عام بے گناہ شہری کو کیوں طلب نہیں کر رہا۔ چیف جسٹس کو ڈھیر سارے ازخود نوٹس لینے کی کیا ضرورت ہے؟ سرکاری دفتروں کے مرحلوں سے کوئی گزر کر تو دیکھے سرکاری نظام میں ایک عام اہل کار کی کوتاہی کا کوئی تو ذمہ دار ہو گا۔ کلرک ریٹائرڈ اور مرحوم لوگوں کے ورثا کو جس بے رحمی اور بے دردی سے خوار کرتے اور رلاتے ہیں اس کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے۔ نواز شریف کے نظریاتی اور فلسفی ہونے کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ سقراط، بقراط، افلاطون اور جالینوس کے نظریاتی اور فلسفی ہونے کا فیصلہ ان کے ساتھیوں نے نہیں تاریخ نے کیا۔ احد چیمہ کی میٹرو اورنج ٹھیکوں میں کرپشن پر پکڑنے کو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ انہیں نیب نے ملک و قوم کی خدمت سے روک دیا ہے۔ قانون کی بالادستی کے بغیر ملک میں کبھی نیا دور نہیں شروع ہو گا۔ سڑک کی چوڑائی بڑھانے‘ پارک کو اپنے گھر سے جوڑنے کو اختیارات کے ناجائز استعمال سے تعبیر نہ کیا جائے تو اسے کیا کہا جائے؟ اچھے دنوں کے انتظار میں پاکستانیوں نے 70 سال گزار دیئے ہیں۔ کیا عوامی نمائندوں کو دیانتدار نہیں ہونا چاہئے؟ کیا 2018ءکے انتخابات میں نواز شریف کو سیاسی شہید کا رتبہ مل جائے گا؟ عام پاکستانی کا سوال ہے کہ جو احکامات چیف جسٹس جاری کر رہے ہیں وہی احکامات جاری کرنے کا خیال وزیراعظم کو کیوں نہیں آیا؟ سعد رفیق کو پتہ چل گیا ہے کہ چنے کبھی لوہے کے نہیں ہوتے۔ ریلوے کے مکمل آڈٹ کے بعد ایسے چنے سامنے آ سکتے ہیں جہاں گھوسٹ سکولوں کی طرح گھوسٹ پنشنرز بھی جنم لیتے رہے۔ پہلی بار قانون کی بالادستی پر کچھ لوگوں کو تکلیف کی سمجھ نہیں آئی۔ عطائیوں‘ جعلی پیروں‘ دن رات ہوٹلوں میں ملاوٹ کا زہر کھلانے والوں کی گرفتاری کا حکم کون دے گا؟
”نواز شریف کا کوئی متبادل نہیں“ کہنا درست نہیں اتنی بڑی بڑی ہستیاں دنیا سے چلی گئیں کارخانہ¿ قدرت میں کبھی کہیں خلل نہیں پڑا۔ کسی امام مسجد کی رحلت سے کبھی کسی مسجد میں نماز باجماعت رکی ہے؟ کیا دنیا بھر کی کسی فوج کے سالار کے بارے میں کبھی کسی نے کہا کہ اس کا کوئی متبادل نہیں۔ بیٹا باپ کا متبادل ہی تو ہوتا ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج کا محاورہ یوں ہی ایجاد نہیں ہو گیا۔ عدل سے محروم سماج اندھیر نگری ہی تو ہوتا ہے تنخواہیں اور رشوت لیتے جانا اور کچھ نہ کرنا کسی کی نہ سننا اندھیر نگری نہیں تو اور کیا ہے؟ جس معاشرے میں معصوم بچیاں ہوس کا نشانہ بنا کر گندے نالوں اور کوڑے کے ڈھیروں پر پھینک دی جائے یا جلا دی جائیں اسے کون اندھیر نگری نہیں کہے گا؟ فوڈ اتھارٹی کی موجودگی میں ایک لٹر خالص دودھ میسر نہ آئے اور انٹی کرپشن کے ہوتے ہوئے بے خوفی اور بے باکی سے رشوت لی جائے تو ایسے ماحول کو اندھیر نگری سے تعبیر نہ کیا جائے تو کیا کیا جائے؟ اشرافیہ کے محلوں کو چھوڑ کر پاکستان کا کون سا گلی محلہ بازار مارکیٹ کچرے اور گندگی سے پاک دکھائی دیتی ہے۔ کس سرکاری تعلیمی ادارے اور ہسپتال میں پینے کا صاف پانی دستیاب ہے؟ کتنے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کو سرکاری پے سکیلوں کے مطابق تنخواہ ملتی ہے؟ ”یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے“ کہنے میں کیا خرچ ہوتا ہے؟ کیا انسانی مسائل‘ مسائل نہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز ینگ ڈاکٹرز نابینا‘ ٹیچرز کلرک کسان آئے روز سڑکوں پر سراپا احتجاج کیوں رہتے ہیں؟ الیکشن سے پہلے مفاد اور اقتدار پرستوں کے الائنس اور محاذ بننے شروع ہوں گے۔ جنوبی پنجاب جیسے مدفون نعرے پھر سنائی دینے لگے ہیں۔ ہونا کچھ بھی نہیں اور بکھیڑے کیا کم ہیں۔ سیاست میں مائنس شریف فارمولا کامیاب ہوتا ہے یا پھر مائنس الطاف والے فارمولے کی طرح ایم کیو ایم کی کرچیوں کی طرح ن لیگ کی کرچیاں بھی فرش پر پڑی دکھائی دیتی ہیں۔ فی الحال تو سیاسی کنفیوژن ہے۔