ادھر جنوبی پنجاب کے صوبے کے قیام کی مہم چلی، اور دیگر صوبوں کی محرومیوں کا بھی رونا سننے میں آیا تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی فوری حرکت میں آئے اور بہاولپور جا پہنچے اور وہاں کے اکنامک ڈویلپمنٹ فورم سے طویل بحث مباحثہ کر کے انہیں قائل کیا کہ ایک تو سی پیک کی متوازن اور تیز رفتار ترقی کا عمل جاری ہے بلکہ ملک کے تمام صوں کی مساوی اور متوازن ترقی کے لئے بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کاوشیں شامل ہیں۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) ملک کی معیشت کو مستحکم بنائے گا اور اس کے اثرات شرح نمو ، انفراسٹرکچر، تجارت اور کاروباری سرگرمیوں پر بھی مرتب ہوں گے۔بہاولپوراکنامک ڈویلپمنٹ فورم کے وفد سے سرکٹ ہاﺅس میں ایک ملاقات کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سپریم لیڈر نوازشریف کے وژن کے تحت صوبہ پنجاب کے تمام علاقوں کو ترقی دی جا رہی ہے ، اس تیز رفتار ترقی کا کریڈٹ صوبائی حکومت کو بھی جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اچھی پالیسی اور منصوبہ بندی کسی بھی علاقے کی ترقی کی کنجی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو سابقہ حکومت سے توانائی بحران، دہشتگردی اور معاشی عدم استحکام سمیت مختلف ایشوز ملے جنہیں کامیابی سے حل کر دیا گیا۔ انہوں نے بہاولپور کی ترقی میں بہاولپور اکنامک ڈویلپمنٹ فورم کے کردار کو بھی سراہا اور اس کے عہدیداروں کو ان کی کوششوں پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ بہاولپور بھی موٹر وے سے استفادہ کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ قومیں ٹیکس ادا کئے بغیر ترقی نہیں کرسکتیں۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا ہے۔ قبل ازیں بہاولپور اکنامک ڈویلپمنٹ فورم کی سرگرمیوں سے متعلق وزیراعظم کو بریفنگ دی اور اس کے چیئرمین ڈاکٹر رانا محمد طارق نے وزیراعظم کو سوینئر پیش کیا۔ وفاقی وزیر برائے تعلیم انجینئر محمد بلیغ الرحمٰن، سینیٹر چوہدری سعود مجید اور صوبائی وزیر برائے کوآپریٹو ملک اقبال چنڑ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ بعدازاں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن بہاولپور کے وفد نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی۔یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم دارالحکومت سے نکلے اور دور دراز کے شہر جا پہنچے۔ اس علاقے میں وہ عناصر سرگرم عمل ہیں جو لوگوں کی محرومیوں کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔اور اس ا ٓڑ میں پنجاب کے سب سے بڑے آبادی والے صوبے کی تقسیم کا مطالبہ ایک بار پھر زبان پر لے آئے ہیں، وزیر اعظم کی ا س علاقے میں آمد ہی سے پہلا اعتراض تو زائل ہو گیا کہ حکمران دوردروز کے صوبوں کا دورہ نہیں کرتے، ویسے یہ پروپیگنڈہ جھوٹ پر مبنی ہے، وزیراعلیٰ شہباز شریف ملتان، بہاولپور، رحیم یا خان میں اکثر آتے جاتے رہتے ہیں، چولستان کا صحرا تو عرب اور خلیجی شہزادوں سے ا ٓباد رہتا ہے ا ور یہاںنئی بستیاں جگمگاتی ہیں، جہازوں کے جہاز اتارے جاتے ہیں اور خیموں کی قطاریں ریگستان میں چمکنے لگتی ہیں، ان شہزادوں کو خدمت گاروں کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ معاوضہ دینے میں کنجوس نہیں ہیں ، ہر خاندان سال بھر کی ضروریات کے لئے کمائی کر لیتا ہے۔ مجھے جنوبی پنجاب کے لیڈروں سے بھی پوچھنا ہے کہ وہ اس علاقے کی کس محرومی کا تذکرہ کرتے ہیں ، یہاں دنیا کا بہترین آم پیدا ہوتا ہے۔ کپاس کے کھیت لہلہاتے ہیں۔ان کے مالک بڑے زمیندار ہی نہیں چھوٹے کاشتکار بھی ہیں۔وسطی پنجاب کو ہر قسم کی گالیاں دی جاتی ہیں مگر یہاں کوئی شخص ایسا نہیں جو ہیلی کاپٹروں یا جہازوں کا مالک ہو، جبکہ جنوبی پنجاب کے چودھری منیر، جہانگیر ترین اور احمد محمود ان نعمتوں کے مالک ہیں۔ اس کے باوجود جنوبی پنجاب کی محرومی کا رونا ،چہ معنی دارد۔ بلوچستان کے مسائل ہر ایک کی سمجھ میں آتے ہیں مگر ا سکی بڑی ذمے داری اس صوبے کی سیاسی اور حکومتی قیادت پر عائد ہوتی ہے، ظفراللہ جمالی وزیر اعظم رہے، سینیٹ کے ڈپٹی چیئر مین کا منصب بلوچستان کے حصے میںکئی بارا ٓیا۔وفاقی وزارتوں کا حصہ بھی بلوچ لیڈروں کو ملتا رہا، اس وقت بھی ایک ہی خاندان بلوچستان کی گورنری بھی سنبھالے ہوئے ہے، ایک شخص قومی اسمبلی میں بولنے کے لئے آزاد ہے، اسے کام کرنے میں بھی تیزی اورا ٓزادی دکھانی چاہئے تھی۔ اصل میں بلوچ سردار صوبے کی ترقی کے اس لئے خواہاں نہیں ہیں کہ اس سے عام ا ٓدمی پڑھ لکھ کر ان کے مقابل کھڑا ہو جائے گاا ور سرداروں کی اجارہ داری اور بالا دستی کو چیلنج درپیش ہو گا، بلوچ سردار صوبے کے عوام کو غلام ہی دیکھنا چاہتے ہیںمگر اب سی پیک کا منصوبہ ان سرداروں کی جارہ داری اور بالادستی کو بلڈوز کر کے رکھ دے گا۔ سی پیک ہر بلوچ شہری کو بہرہ مند کرے گا، میں ابھی ایک ٹی وی چینل پر لائیو کمنٹری سن رہا تھا جس میں بتایا گیا کہ گوادر میں تین برتھ تعمیر ہو چکے ہیں اور اگلے تیس برس میں مزید اسی برتھ تعمیر ہو جائیں گے ، ذرا اندازہ کیجیئے جب گوادر میں سو کے قریب جہاز قطار اندر قطار لنگر انداز ہونے کے لئے کھڑے ہوں گے۔میں نے پچھلے چند ہفتوں میں سی پیک کے مختلف ماہرین سے تبادلہ خیال کیا ہے، ہر ایک نے خوش کن مستقبل کی پیش گوئی کی ہے مگر واضح رہے کہ اس منصوبے پر پیش رفت کاانحصار کلی طور پر چین پر ہے، ہمارے حصے کا کام تھا سڑکوں کی تعمیر، یہ کام نناوے فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ نئے بجلی گھر بھی اسی فیصد کے قریب کام شروع کر چکے ہیں، اگر عمران خان دھرنا نہ دیتا تو اب تک سو فیصد کام مکمل ہو چکا ہوتا اور موجودہ حکومت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے وعدوںمیں سرخرو ہو چکی ہوتی مگر اب بھی اسے کوئی شرمندگی نہیں ہے، ضرورت کی بجلی موجود ہے۔باقی رہا سی پیک کا منصوبہ تو یہ بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو کاا یک حصہ ہے، چین کا یہ جناتی منصوبہ تین بر اعظموں پر محیط ہے اور ان کی معاشی تقدیر بدلنے کو یقینی بنائے گا۔ اس ضمن میں گوادر کی بندرگاہ کی تکمیل و تعمیر کا سارانحصار چینی انجینئروں کی مہارت اور تیز رفتاری پر ہے، اس سلسلے میں پاکستان پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی کیونکہ نہ تو ا سکے پاس انجینئرنگ کی مطلوبہ صلاحیت ہے اور نہ مالی وسائل مگر چین اس منصوبے سے غافل نہیں ہے کیونکہ اگر اسے تین بر اعظموں تک پہنچنا ہے تو گوادر کا چالو ہونا از بس ضروری ہے، گوادر اپنے عروج پر آجائے گا تو پاکستان کی معیشت زقندیں بھرتی نظر آئے گی ۔
٭٭٭٭٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024