نگران حکومتیں!
الیکشن سے قبل نگران حکومتوں کا قیام ایک قانونی تقاضا ہے۔ مقصد صاف اور شفاف الیکشن کرانا ہوتا ہے۔ گو بنیادی طورپر کام الیکشن کمشن کا ہے‘ چونکہ الیکشن کمشن بھی ہدف تنقید بنتا ہے اس لئے یہ کام مکمل طورپر اس کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ مغرب اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں حکومتیں ٹوٹتی نہیں ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہنوز جمہوریت کے طالبعلم ہیں‘استاد نہیں بن پائے۔ طالبعلم بھی ایسے جن کے متعلق غالب نے کہا تھا ....
لیتا ہوں مکتب غم دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا
قانون نے غیرجانبدار حکومت بنانے کا کام حکومت وقت اور لیڈر آف دی اپوزیشن کو سونپا ہے۔ دونوں مل بیٹھ کر متفقہ نگران لاتے ہیں۔ دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو شکایت رہتی ہے کہ اس ”کارخیر“ میں بندر بانٹ ہوتی ہے۔ افہام و تفہیم سے اپنی پسند اور مطلب کے لوگ لائے جاتے ہیں۔ ایسے مہاپُرش جو براہ راست مداخلت نہ بھی کریں تو چشم پوشی ضرور کرتے ہیں۔ حکومت دھاندلی نوکر شاہی سے کرواتی ہیں۔ ایسے اہلکار جو نہ صرف انکے پروردہ بلکہ بھرتی کردہ بھی ہوتے ہیں۔ ماضی کی حسین یادوں کے علاوہ ان کی نگاہ مستقبل پر بھی ہوتی ہے۔ ترقی اور تبادلے۔
پچھلی مرتبہ جو صاحبان لائے گئے‘ وہ آج تک ہدف تنقید بنتے آتے ہیں۔ پاکستان کے ایک سابق جج کھوسو صاحب کو نگران وزیراعظم بنایا گیا۔ موصوف عمر کے اس حصے میں تھے جہاں کرسی سے کھڑا ہونا بھی ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ صنف پیری کی وجہ سے ان پر غنودگی سی طاری رہتی تھی۔ میر امن کے چوتھے درویش کی طرح سارا دن سوتے تھے اور رات آنکھوں میں کٹتی تھی۔ ان سے توقع کرنا کہ وہ سارے ملک کے طوفانی دورے کرینگے‘ نوکر شاہی کی طنابیں کھینچیں گے‘ پارٹیوں کی ناجوازیوں کا نوٹس لیں گے عبث تھا۔ جب بھی اپنی خواب آلود آنکھیں کھولتے تو انہیں خیال آتا کہ گاﺅں گئے کافی دن ہو گئے ہیں۔ چنانچہ ملٹری سیکرٹری فوراً ہی سرکاری ”اڑن کھٹولہ“ تیار کرواتا۔ ایئرپورٹ پر ملاقاتیوں کی لمبی قطار ہوتی۔ ہر کسی کو کوئی نہ کوئی کام ہوتا۔ انہیں اس بات کا ادراک ہوتا کہ بہتی گنگا میں جتنی جلد ممکن ہو سکے ہاتھ دھو لینے چاہئیں۔
پنجاب میں وزارت علیہ کا ہما نجم سیٹھی صاحب کے سر بٹھایا گیا۔ انکے دل کی طرح ماشاءاللہ ان کا سر بھی اس قدر فراخ ہے کہ بیک وقت کئی پرندے بیٹھ سکتے ہیں۔ سیٹھی صاحب اس لئے بھی Deserve کرتے تھے کہ کسی زمانے میں میاں نوازشریف نے ان کو گرفتار کروا کے بوری بند کیا تھا۔ اس نامزدگی کو ایک اعتبار سے تلاقی مافات بھی کہا جا سکتا تھا۔ سیٹھی صاحب نہایت زیرک انسان ہیں۔ ماضی کی راکھ کریدنے کی بجائے انہوں نے اس نعمت غیر مترقبہ کو عطیہ خداوندی سمجھا۔ ایک رسمی معذرت کے بعد ہاں کر دی۔ محترم کو قدرت نے کئی خوبیوںسے نوازا ہے۔ ان کا شمار ان مہان ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے He Can take Time by The Forlock, Eernal Happiness دائمی خوشی‘ کرکٹ کی چیئرمینی ایک پکی ہوئی کھجور کی طرح انکی جھولی میں آن گری۔ ویسے بھی میاں صاحب اپنے جانثاروں پر کرمفرمائیاں کرتے رہتے ہیں۔ اس حاتم طائیانہ رویئے کے پیچھے ایک ہی سوچ کارفرما ہوتی ہے۔ ”ساڈا کی جاندا اے۔“
اس مرتبہ بھی احتجاج کی لہر اُٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ اندیشہ ہائے دور دراز! عمران خان اور دیگر پارٹیوں کو فکر ہے کہ خورشید شاہ ‘ نوازشریف گٹھ جوڑ کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلائے گا۔ پیپلزپارٹی گو نواز مخالف ہے‘ لیکن شاہ صاحب کا میٹر اپنے انداز سے چلتا ہے یہ (ن) لیگ کیلئے بوجوہ دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اب بھی ان کے لب و لہجے میں تنقید کم اور تاسف زیادہ ہوتاہے۔ نوازشریف میری نصیحت پر عمل کر لیتا تو یہ ہوتا۔ یہ ہوتا تو وہ نہ ہوتا۔ وغیرہ۔ ہم نے پچھلے کالم میں بھی کہا تھا کہ جو بات اشارے کنایئے میں کہی جا سکتی ہے‘ اس کا اظہار شیخ صاحب کھردرے لہجے میں کر جاتے ہیں۔ نتیجتاً ایک نیا قضیہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ بات کو غلط ملط انگریزی کا تڑکا بھی لگا جاتے ہیں۔ اب کے انہوں نے جوڈیشل مارشل لاءکی اصطلاح وضع کرکے ایک طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ پہلے تو وہ دو لفظ اک دوسرے کی ضد ہیں۔ جس طرح خشک پانی نہیں ہوتا‘ لکڑی کا لوہا نہیں ہوتا‘ اسلامی سود نہیں ہوتا۔ اسی طرح جوڈیشل مارشل لاءنہیں ہوتا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ چیف جسٹس صاحب کیلئے وضاحت کرنا ضروری ہو گیا۔ اس بیان پر ”شمس العلما“ حضرت فضل الرحمن بولے۔ جج خود نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ کیا مولانا صاحب کو بتانے کی ضرورت ہے کہ جب ججوں کے فیصلوں پر نہیں بلکہ خود ان پر ہرزہ سرائیاں ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ کی جائیں تو پھر ان کا بولنا ضروری ہو جاتا ہے۔ کوئی شخص یا ادارہ یکطرفہ پراپیگنڈے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
یہ بات ذاتی مشاہدے کی بنا پر کہی جا سکتی ہے کہ عبوری حکومت اگر چاہے بھی تو ازخود دھاندلی نہیں کروا سکتی۔ دو تین ماہ کے قلیل عرصے میں تو سیکرٹری اور دیگر افسروں کے نام تک نہیں یا کئے جا سکتے۔ Who is Who! and What is What? وزیراعظم ہاﺅس کی راہداریوں اور غلام گردشوں سے باہر نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سول سروس کے مرغان کلنگ اور پولیس کے مست ملنگ انہیں فصلی بٹیرے کہتے ہیں۔ ایسے حاکم جن کی آمد ان کے جانے کی تمہید ہوتی ہے۔ جوکسی کو کچھ دے نہیں سکتے۔ کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ تادیبی کارروائی میں بھی مہینے لگتے ہیں۔ اس وقت تک وہ حکومت آچکی ہوتی ہے جس کی وجہ سے افسر معتوب ہوتا ہے۔ سرکاری اہلکار بہت چالاک ہوتے ہیں۔ انہیں کافی حد تک پتہ چل جاتا ہے کہ کونسی پارٹی حکومت بنائے گی۔ یہ فوراً اپنا قبلہ ادھر راست کر لیتے ہیں۔ سیٹھی صاحب اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ان چند ماہ میں کتنے اہلکار انہیں ملنے آئے تھے۔ شام کو سب کا رخ جاتی امرا کی طرف ہوتا تھا۔ چیونٹیوں کی طرح قطار بنائے یہ رینگتے‘ لڑھکتے‘ بھاگتے ”حاضری“ لگوانے پہنچ جاتے تھے۔اسی طرح سندھ کے ملازمین ”سائیں منجو“ کے دربار میں حاضری لگواتے تھے۔ ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ تو سب نے سن رکھا ہے‘ لیکن ایک زرداری سب درباری کا منظر شاید ہر کسی نے نہ دیکھا ہو۔
”پری پول رگنگ“ گو ہر کسی کو نظر نہیں آتی‘ لیکن اس دن سے ہی شروع ہو جاتی ہے جب حکومت بنتی ہے۔ نوکریاں‘ تحائف‘ خطیر فنڈز‘ آدھی رقم ممبران اسمبلی حواریوں میں بانٹ دیتے ہیں اور آدھی اگلے الیکشن کیلئے بنک لاکروں میں ڈال دیتے ہیں۔ علاقے کے بااثر لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ نور محمد کے بیٹے کو کس نے پولیس میں بھرتی کر رکھا ہے۔ چودھری محمد دین کے بیٹے کو کس نے Out of Turn Promotion ترقی لوائی ہے۔ کس کس کو مقدمات سے بری کروایا گیا ہے۔ کون مخالفت کی پاداش میں نشان عبرت بنا ہے۔ دیہی علاقوں میں احسان فراموشی کو برا فعل گردانا جاتا ہے۔ عصا اور کلیمی میں جو تعلق ہے اس سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔
گویا عبوری حکومت میں کوئی شخص بھی آجائے تو وہ کسی پارٹی کو جتوانے یا ہرانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ دھاندلی جتنی ہونی تھی ہو چکی ہوگی۔ اربوں کے فنڈز بٹنے تھے وہ بٹ چکے ہیں۔ موجودہ میڈیا کے ہوتے ہوئے کوئی شخص راستے سے ہٹ کر منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ چونکہ پنجاب میں ممبران اسمبلی کی تعداد تینوں صوبوں کو ملا کر بھی زیادہ بنتی ہے اس لئے وہ شخص ہی مرکز میں حکومت بنائے گا جسے اس صوبے سے اکثریت حاصل ہوگی۔ عام حالات میں تو (ن) لیگ واضح اکثریت سے جیت جاتی‘ لیکن اب صورتحال کچھ مختلف ہے۔ میاں صاحب نااہل تو ہو چکے ہیں‘ اگر مقدمات میں فیصلہ ان کیخلاف آیا تو پارٹی کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔ اس صورت میں پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب اور تحریک انصاف سنٹر اور شمال سے کچھ سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گی اس کے باوجود پنجاب کی حد تک (ن) لیگ کی سیٹیں ان سے کچھ زیادہ ہی ہونگی۔ سندھ اور بلوچستان میں (ن) لیگ کا صفایا ہو جائیگا۔ خیبر پختونخوا میں محض اشک شوئی ہوگی۔ گویا الیکشن کے بعد وہی منظرنامہ ابھرے گا جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔
تثلیث کے دو حصے جس طرف ہونگے‘ وہی مخلوط حکومت بنا پائیں گے۔ سادہ لوح خان کو یہ بات سمجھنے کی ازحد ضرورت ہے جو Land Slide بھٹو کے زمانے میں ہوا تھا۔ وہ اب ممکن نہیں ہے۔ (ق) لیگ اور پیپلزپارٹی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ انکی مناقشت سے ہی (ن) لیگ پنجاب میں حکومت بنا پائی۔ اس سے اگلے الیکشن میں مرکزی حکومت کی راہ ہموار ہوئی۔ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا۔ کوئی ادنیٰ دشمن یا جگری دوست بھی نہیں ہوتا۔ اسے ہی ممکنات کا کھیل کہتے ہیں۔