انتخابات 2018ء
انتخابات ایک خالص جمہوری عمل کا نام ہے اور جمہوریت کی نشونما اور استحکام و بقاء کے لئے افہام و تفہیم‘ نظم و ضبط ‘ تحمل و برد باری اور سب سے بڑھ کر امن و امان کا برقرار رہنا بنیادی شرط ہے لہٰذا ہر محب وطن سچے اور کھرے پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ اپنا حق رائے دہی انتہائی نظم و ضبط اور سوچ سمجھ کر جذبہ حب الوطنی کے تمام تقاضوں اور اصولوں کی مکمل پاسداری و ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرے۔اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ خواتین ووٹرز کی اکثریت اپنے مردوں کی ہدایت کے مطابق ووٹ کا استعمال کرتی ہے‘ جبکہ جاگیرداری‘ زمینداری‘ وڈیرہ شاہی اور قبائلی نظام پر مشتمل ہمارے معاشرے میں مرد بھی اپنے ووٹ کا استعمال اپنی مرضی سے نہیں اپنے وڈیرے کے حکم پر کرتے ہیں‘ اسی بناء پر آج تک پاکستان کی اسمبلیوں میں ایسے لوگ پہنچتے رہے ہیں جو صحیح معنوں میں عوام کے نمائندہ نہیں۔ یہ صورتحال عوام کیلئے حقیقی جمہوریت سے مایوسی کی بنیاد بنی رہی ہے۔ سبز باغ ہر ایک سیاسی جماعت اور اس کے رہنما کی تقر یر و تحریر کا لازمی جرو ہوتا ہے لیکن دیکھنا یہ چاہیئے کہ کون کہہ رہا ہے؟ اس نے ماضی میں کون کون سے وعدے کئے‘ اور کتنے وفا کئے؟ آئندہ جو وعدے ہیں وہ ان پر کیسے پورا اترے گا؟ عوام کو کیسے ریلیف ملے ؟ مالی وسائل کہاں سے آئیں گے؟ ملک پہلے ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے؟ کیا وہ منصوبے قابل عمل بھی ہیں یا نہیں؟ کوئی محکمہ اور کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں کرپشن کی نئی سے نئی داستان منظرعام پر نہیں آ رہی ہو ۔ اگر عدالتوں میں دائر ہونے والے ریفرنس کا فیصلہ ہوئے بغیر انتخابات ہوتے ہیں تو جس گندگی کی صفائی کے دعوے کئے جا رہے ہیں وہ دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
جنوبی پنجاب سے کراچی تک ایک نئی لہر آ گئی ہے سیاسی ایوان منڈی بن گئے ہیں۔ کراچی کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ نواز شریف کی سیاست کا دور مکمل ہو گیا۔ میاں صاحب نے جس طرح وزرات عظمیٰ کیلئے اگلا امیدوار اپنے بھائی شہباز شریف کو نامزد کیا ہے۔ اسی طرح انہیں پارٹی اختیارات بھی بھائی کو ٹرانسفر کر دینے چاہئیں۔ اس سے انہیں خاصا ریلیف ملے گا۔ 2018ء پیپلز پارٹی کی سیاسی بقا کا سال ہے۔ تمام تر رکاوٹوں اور مختلف الائنس بننے کے باوجود پیپلز پارٹی اگلے الیکشن میں سندھ میں خاصی سیٹیں حاصل کر لے گی‘ تا ہم باقی دیگر صوبوں میں پیپلز پارٹی کو برائے نام نشستیں حاصل ہو سکیں گی۔ جہاں تک ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی کا تعلق ہے، تو ڈاکٹر فاروق ستار کے مقابلے میں مصطفی کمال اس وقت مضبوط پوزیشن میں ہیںچاہے متحدہ کے سارے ارکان اسمبلی پاک سرزمین پارٹی میں چلے جائیں۔ پی ایس پی کو ووٹ نہیں ملیں گے۔ ڈاکٹرفاروق ستار مہاجرالائنس کے لئے سرگرم ہیں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے سارے دھڑے ایک ہوگئے تو وہ الیکشن بھی جیت جائیں گے۔ جب بھی الیکشن ہوئے مسلم لیگ (ن) ہی مرکز میں اکثریت حاصل کرے گی تاہم مائنس نواز شریف کے ساتھ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی الیکشن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اگر مائنس زرداری ہو گیا، جس کا خاصا امکان ہے کہ پھر شاید اگلے الیکشن میں پی پی کی پوزیشن کچھ بہتر ہو جائے۔ دوسری جانب آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کو اقتدار ملنا مشکل ہے۔ یوں عمران خان کی وزیراعظم بننے کی خواہش ایک بار پھر پوری نہ ہو سکے گی‘ البتہ تحریک انصاف کو اتنی سیٹیں ضرور ملیں گیں کہ پریشر گروپ کے طور پر اس کا وجود قائم رہے گا ۔ تحریک انصاف میں اس قدر گروپ بندی ہے کہ ایک گروپ دوسرے گروپ کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی عمران خان نے ابھی تک اپنے امیدواروں کا کوئی خاکہ پیش کیا ہے بلکہ عمران خان کی بھرپور کوشش ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے ایسے افراد کو تحریک میں شامل کیا جائے جو اپنا ذاتی ووٹ بینک بھی رکھتے ہوں اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے نعرہ کہ وہ نوجوان قیادت کو سامنے لائیں گے اس سے منحرف ہو چکے ہیں اور روایتی سیاست کو اپنا لیا ہے جس سے ان کی تبدیلی کا نعرہ خودکشی کرگیا ہے۔ سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ 2018ء میں معلق پارلیمنٹ آئے گی اورکسی جماعت کی اکثریت نہیں ہوگی اس لئے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی مل کر مخلوط حکومت بناسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کے امیدوار کو مسلم لیگ پسند نہیں کرے گی کیونکہ یہ سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا انتخابات میں 6سے 7 ماہ کی تاخیر ہوئی تو کھیل مسلم لیگ کے ہاتھ سے نکل جائے گا کیونکہ اس دوران بیوروکریسی مکمل تبدیل ہو جائے گی اس وقت لوہا گرم ہے اور مسلم لیگ (ن) کو انتخابی سبقت حاصل ہے‘ الیکشن میں جس قدر تاخیر ہوگی مسلم لیگ کو انتا ہی نقصان ہوگا۔پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان خفیہ ہم آہنگی موجود ہے ۔