ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سا کہیں جسے!
سنی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کے انتقال پر ملال کی خبر لاکھوں پاکستانیوں کیلئے آسمانی بجلی گرنے کے مترادف تھی۔وہ ابھی چند روز پہلے تک اپنی جماعت کے حوالے سے سیاسی اور انتخابی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد اور کراچی سمیت وہ پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنی جماعت کے جلسوں ریلیوں او ر ورکروں کے اجلاس میں شرکت کرتے اور خطاب کرتے نظر آرہے تھے کہ 15 اپریل پیر کی صبح اچانک رہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔وہ ایک بہت بڑے دینی سکالر اور روحانی شخصیت محدث اعظم پاکستان مولانا سر دار احمدؒ کے جگر گوشہ تھے۔ صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم دینی اور سیاسی حلقوں میں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ کئی برس جماعت اہلسنت پاکستان کے پلیٹ فارم سے علامہ شاہ احمد نورانی ؒ اور علامہ عبدالستار خان نیازیؒ کی قیادت میں سرگرم رہے۔انہوں نے ملکی سیاست میں عملی طور پر حصہ لینے کا آغاز اپنے آبائی شہر فیصل آباد سے کیا اور وہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے مسلسل پانچ بار رکن منتخب ہونے کا اعزاز رکھتے تھے ان کا سیاسی اتحاد اپنے اجداد کی طرح پاکستان مسلم لیگ سے رہا۔ وہ نواز شریف کے دور حکومت میں صوبائی وزیر اوقاف بھی رہے۔ کچھ عرصہ قبل قرآن بورڈ کے صدر کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور اس دوران انہوں نے اشتعال اور تعصب پھیلانے والی بیسیوں تحریروں ،تقریروں، کتابوں ا ورپمفلٹوں کو ضبط کرایا اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے علامہ عبدالستار خاں نیازی ؒکے اس فارمولے پرعمل کرانے کی کوشش کی کہ ”اپنا مسلک چھوڑو نہ، دوسرے کے مسلک کو چھیڑونہ“ وہ سابق ڈکیٹٹر جنرل پرویز مشرف پر مکمل تنقید کرتے رہے۔ وہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر بہت مضطرب تھے اور ان کا صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے بالخصوص مطالبہ تھا کہ اولیائے عظام کے مزارات بالخصوص حضرت داتا گنج بخش اور حضرت بابا جی فریدالدین مسعود گنج شکر(پاکپتن) جیسی عظیم ہستیوں کے آستانوں کو نشانہ بنانیوالوں کو پکڑا جائے اور انکے سرپرستوں بے نقاب کیا جائے اور دارالعلوم جامعہ نعیمہ لاہور میں 12 جون2009کو ہونے والے خود کش حملہ میں ملک کے ممتاز دینی سکالرڈاکٹر علامہ سرفراز نعیمی کی شہادت سے ملک بھر کے کروڑوں اہلسنت میں اضطراب وتشویش کی لہر دوڑ گئی۔ جس پر صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم نے بالخصوص صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ متذ کرہ سانحات کے ذمہ داروں کو پکڑا جائے۔ اسی ایشو پر ان کی مسلم لیگ ن سے ناراضی اور دوری پیدا ہوئی۔ تاہم اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے صاحبزادہ فضل کریم نے نفرت اور کشیدگی کا ماحول پیدا نہیں ہونے دیا اور مثبت انداز میں مرکزی جمعیت علماءپاکستان اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنی دینی اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اپریل2011کے دوسرے ہفتہ میں مینار پاکستان پر ”استحکام پاکستان“ کے عنوان سے ایک تاریخی اجتماع کا انعقاد کیا۔ اس موقع پربالخصوص 55ممالک کے ایک ہزار سے زائد مفتیان کرام کی طرف سے خودکش حملوں کو حرام قرار دینے کا فتویٰ بھی جاری کیا گیا۔ اس کانفرنس میں خاص طور پر دفاتی حکومت کے طرز حکمرانی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کرپشن اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا اس کے بعد اگست میں کراچی سے اسلام آباد تک ایک شاندار احتجاجی ٹرین مارچ کا اہتمام کیا اور ملک سے غربت کے خاتمے اور امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے اور کراچی میں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ جیسے گھناﺅ نے جرائم کو روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ایک زبر دست متحرک قائد کی طرح صاحبزادہ حاجی فضل کریم نے 24 نومبر2011کو فیصل آباد کے تاریخی دھوبی گھاٹ میں ایک شاندار تاریخی اجتماع کا انعقاد کرکے بھر پو عوامی حمایت کا مظاہرہ کیا۔ اس بہت بڑے اجتماع میں صاحبزادہ حاجی فضل کریم نے اپنے خطاب میں سنی اتحاد کونسل کے منشور کے اہم نکات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل پاکستان میں محنت کش مزدور اور چھوٹے ملازمین میں کم ازکم تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر کریگی ۔ بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے کالا باغ ڈیم بنانے کیلئے صوبوں میں ہم آہنگی پیدا کریگی۔یہ حقیقت ہے کہ علامہ شاہ احمد نوارانی اور علامہ عبدالستار خان نیازی کی جیسی قد آور شخصیتوں کے اٹھ جانے کے بعد سنی حلقوں میں جو بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا تھا۔ اس کو ہمہ وقت متحرک رہنے والے حاجی فضل کریم مرحوم ومغفور نے پُر کرنے کی مقدور بھر کوشش ضرو رکی۔ وہ بلا شبہ ایک نڈر بے باک اوربے خوف سپاہی کی طرح اسلام اور تحفظ پاکستان کیلئے زندگی کے آخری سانس تک پوری جرات کے ساتھ کھڑے رہے ایسا کہاں سے لاﺅں کہ تجھ سہا کہیں جسے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور انکے پسماندگان اور لاکھوں عقیدتمندوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور انکے صاحبزادہ دے حامد رضا خاں کو ان کا صحیح جانشین بننے کی توفیق عطا فرمائے۔