ہفتہ ‘27 صفر المظفر 1445ھ ‘ 16 ستمبر 2023

آئی ایم ایف کی ہر رابطے پر نئی شرائط‘ بجلی پر ریلیف کیلئے نیا معاہدہ ہوگا۔
کشکول توڑنے کے دعویداروں نے آئی ایم ایف کے چنگل میں ملک کو اس بری طرح سے پھنسا دیا ہے کہ ہماری آنیوالی نسلیں بھی لگتا ہے اس آسیب سے چھٹکارا نہیں پا سکیں گی۔ آئی ایم ایف ہر رابطے میں جس طرح اپنی نئی شرائط ہم پر عائد کر رہا ہے‘ لگتا ہے کہ اب اسکے دفتر کے سامنے سے گزرنے پر بھی ہمارے حکمرانوں کو اسکی کوئی نہ کوئی شرط ماننا پڑیگی۔ ایک طرف حکمران دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ہم جلد آئی ایم ایف سے خلاصی پا لیں گے‘ دوسری جانب حالت یہ ہے کہ وہ ہمیں سانس تک نہیں لینے دے رہااور روزانہ کی بنیاد پر اپنی کڑی شرائط عائد کرکے ہمیں عملاً قبرستان کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ اب ہم آزاد نہیں رہے‘ ہمارے ملکی معاملات اب کوئی اور دیکھتا ہے۔ غضب خدا کا‘ حکمرانوں کے اثاثے کھربوں میں جبکہ ملک کے خزانے میں اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں اور وہ بھی مانگے تانگے کا۔ اسی کا تو آئی ایم ایف فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ویسے تو حکمران اپنی ”رعایا“ اور ملک سے دلی محبت کے داعی ہیں‘ کہتے ہیں مہنگائی پر اگر عوام کو تکلیف ہوتی ہے تو انہیں بھی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ ابھی حال ہی کی بات ہے‘ پی ڈی ایم کے دور میں مریم نواز صاحبہ اپنے پبلک جلسے میں جس جذباتی انداز میں قوم کو باور کرارہی تھیں کہ ”نوازشریف کہتا ہے کہ اسے اگر پٹرول پر ایک روپیہ بھی بڑھانا پڑتا ہے تو اسکے دل پر قیامت گزرتی ہے۔“ ہائے.... جیسے ”ساری قوم کا درد انکے جگر میں ہے“۔ اگر ایسا ہے تو یہ سیاست دان اپنے اثاثوں میں سے کچھ حصہ عوام کی بہتری کیلئے ملک میں کیوں نہیں لے آتے تاکہ قوم کو بھی یقین ہو سکے کہ انکی قیادتوں کو واقعی اپنے عوام سے پیار ہے۔ مگر وہ ایسا ہرگز نہیں کرینگے‘ کیونکہ دل پہ قیامت گزرنے کا بیان صرف عوام کو بے وقوف بنانے تک ہی اچھا لگتا ہے۔ جو ہر سیاسی حکومتی لیڈر کا پسندیدہ بیان ہوتا ہے۔
رہی بات بجلی کے نرخوں میں ریلیف کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے کی تو عوام اب مہنگائی کی نئی لہر کیلئے پھر تیار ہو جائیں کیونکہ اگر حکومت بجلی کے نرخوں میں ریلیف دینے پر آمادہ ہوگی تو اسکی کسر وہ پٹرول مہنگا کرکے یا مزید ٹیکس لگا کر پوری کر لے گی جس کا سابق اتحادی حکومت نے نگران وزیراعظم کوخصوصی اختیار بھی دے دیا تھا۔ پٹرول 10 روپے مہنگا کرنے کا عندیہ تو دے بھی دیا گیا ہے۔ ویسے بھی بجلی کے بلوں میں اسے ایک ماہ بعد رقم ملتی تھی‘ پٹرول کے نرخ بڑھانے سے تو اسے روزانہ کی بنیاد پر پیسے ملتے رہیں گے‘ اور یہی اس کا نیا معاہدہ ہو سکتا ہے۔ کیا کریں‘ ہمارے حکمرانوں کا معانقہ آئی ایم ایف کے ساتھ اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ اسے خوش کرنے کیلئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔
٭....٭....٭
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کیلئے بے پناہ مواقع فراہم کرتا ہے‘ دنیا پاکستان کی سرمایہ کار دوست پالیسی سے مستفید ہو۔
لگدا تے نئیں‘ پر خورے! اس وقت ہماری تاجر برادری جس اذیت سے گزر رہی ہے‘ وہ انتہائی قابل رحم ہے۔ کئی تاجر تو حالات کے جبر سے تنگ آکر بیرونِ ملک جانے پر مجبور ہو گئے اور جو موجود ہیں‘ انہیں نہ پوری بجلی ملتی ہے نہ گیس اور جو تھوڑی بہت ملتی ہے‘ وہ اتنی مہنگی ہوتی ہے کہ انہیں پیداواری لاگت بھی پلے سے ڈالنا پڑتی ہے۔ اس لئے وہ بھی مایوس نظر آتے ہیں۔ سیاسی انتشار نے ملک کو الگ غیرمستحکم کیا ہوا ہے‘ بدترین مہنگائی نے عوام کا سانسیں لینا دشوار کیا ہوا ہے‘ نوجوان نسل روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بے راہروی کا شکار ہے‘ بھوک سے تنگ آکر لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں‘ بازاروں اور مارکیٹوں میں جا کر دیکھیں تو ہر شخص کے چہرے پر مایوسی چھائی اور غربت ٹپک رہی ہے‘ حالات نے انکے چہروں کی رونقیں چھین لی ہیں‘ سیاسی منظر نامہ دیکھا جائے تو اس نے قوم کو الگ مایوس کیا ہوا ہے‘ یعنی ہر طرف غیریقینی کی فضا نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ایسے میں بیرونی سرمایہ کاروں کو صدر صاحب کا بھاشن اپنی مثال آپ ہی نظر آتا ہے۔ ارے جناب! پہلے اپنے تاجروں کو تو مواقع فراہم کر دیں‘ سہولتیں دیکر انہیں تو مطمئن کردیں تاکہ وہ گرتی معیشت کو سنبھالنے میں حکومت کی مدد کرسکیں۔ بازار اور مارکیٹوں میں زیادہ تر لوگ ونڈو شاپنگ کرتے نظر آتے ہیں اور تاجر بے چارے اپنے موبائل فون پر گیم کھیل کر وقت گذارتے ہیں‘ ان حالات میں کون ہمارے ہاں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ ہوگا۔ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے ایسے ہی بیانات ہمارے وزراءبھی دیتے آئے ہیں‘ لگتا ہے ان سب کو ملک میں صرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے‘ تاجروں اور عوام کی بدحالی نہیں۔
٭....٭....٭
عوام نوازشریف کو دو تہائی سے زیادہ مینڈیٹ دیں‘ مریم نواز۔
پی ڈی ایم کا دور حکومت ختم ہوئے ابھی چند ہی ہفتے ہوئے ہیں‘ بے شک یہ ایک اتحادی حکومت تھی مگر وزارتِ عظمیٰ تو مسلم لیگ (ن) ہی کے پاس تھی۔ ان 16 ماہ کی حکومت میں عوام کی جو درگت بنی‘ جس طرح ان کا مہنگائی کی چکی میں پیس کر کچومر نکالا گیا‘ کیا مریم صاحبہ اب بھی توقع رکھتی ہیں کہ انکی پارٹی کو بھاری مینڈیٹ دیا جائیگا۔ خیر یہ تو عوام نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس کو اپنا خیرخواہ سمجھتے ہیں۔ یہ وہی مریم صاحبہ ہیں جب پٹرول‘ گیس‘ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جاتا تو فوراً فرماتیں کہ یہ ہماری حکومت نہیں‘ اور جب عوام کو آٹے میں نمک کے برابر تھوڑا ریلیف مل جاتا تو اپنی پارٹی کے قصیدے پڑھنے لگتیں۔ انکی یہ سب باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ عوام کا ایسا ہی حشر روٹی کپڑا اور مکان اور تبدیلی کے نعرے لگانے والی پارٹیوں نے کیا۔ سچ پوچھیں تو عوام اب اپنے تمام سیاسی قائدین سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اب اگر انکی طرف سے عوام کی خوشحالی کیلئے کوئی ایسا بیان سامنے آتا ہے جس میں واقعی انکی نیک نیتی اور جذبہ شامل ہو‘ تب بھی عوام کو ان پر شک ہی رہے گا۔ یہ دنیا کی واحد قوم ہے جو بار بار ڈسی جانے کے باوجود بے مزہ نہیں ہو رہی۔ بہرحال ابھی تو قوم انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کے مخمصہ میں الجھی ہوئی ہے‘ دیکھتے ہیں کہ 90 دن میں الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں۔ مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ شنید یہی ہے کہ نگران سیٹ اپ کو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے ہی لایا گیا ہے۔ دیکھ لیں‘ ابھی اسے آئے تین ہفتے ہی ہوئے ہیں‘ اس نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔
٭....٭....٭
ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش ہورہی ہے‘ ہر صورت الیکشن چاہئیں‘ بلاول۔
بلاول صاحب کو یہ احساس تو فوراً ہو گیا کہ انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے مگر ان سمیت کسی سیاست دان کو آج تک یہ احساس نہیں ہو پایا کہ انکی پالیسیوں نے عوام کو نہ زندوں میں چھوڑا ہے نہ مردوں میں‘ جس دیوار کے ساتھ انہیں لگایا گیا‘ وہ اسی دیوار تلے آکر مر رہے ہیں۔ آپ اپنے دیوار سے لگنے کی بات نہ کریں‘ یہ تو سیاسی نورا کشتی ہوتی ہے ‘ جو سیاست کے اکھاڑے میں ہی کھیلی جاتی ہے اور عوام کو دکھانے کیلئے لڑی جاتی ہے‘ اصل حقائق تو کچھ اور ہوتے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں‘ ایک دوسرے کو چوک چوراہوں میں گھسیٹنے والے 16 ماہ ایک دوسرے کے بہترین حلیف بنے رہے ‘اس لئے بلاول صاحب فکر نہ کریں‘ یہ دیوار وہ دیوار نہیں جس کے ساتھ قوم کو لگایا جا رہا ہے‘ آپکی دیوار کے پیچھے بہت کچھ چھپا ہوا ہوتا ہے جو قوم کو اس وقت نظر آتا ہے جب دیوار سے لگنے والا اس دیوار کے پیچھے چھپے خزانوں سے مستفید ہو رہا ہوتا ہے۔ رہی بات الیکشن کی تو یہ مطالبہ کرنا بلاول صاحب کا آئینی حق ہے جس کیلئے وہ نگرانوں پر دباﺅڈال سکتے ہیں‘ مگر حالات کے تناظر میں انہیں ہاتھ ہولا ہی رکھنا چاہیے‘ کہیں زیادہ دباﺅ ڈالنے پر انہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں‘ آگے وہ خود سمجھ دار ہیں۔