
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں جمعرات کے روز ہونیوالے دھماکے میں جمعیت علماءاسلام (ف) کے سینئر رہنما حافظ حمداللہ سمیت گیارہ افراد زخمی ہو گئے۔ اس سلسلہ میں اسسٹنٹ کمشنر مستونگ نے بتایا کہ زخمیوں کو طبی امداد کیلئے کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ حافظ حمداللہ کوئٹہ سے قلات کی طرف جا رہے تھے کہ مستونگ کراس کرنے کے بعد دہشت گردی کی یہ واردات ہوگئی۔ بلوچستان کے نگران وزیر داخلہ میرمحمد زبیر جمالی نے اس واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی۔ وقوعہ کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حافظ حمداللہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے انکی خیریت معلوم کی اور کہا کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ دریں اثناءنگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ‘ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی‘ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف‘ سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری‘ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف‘ امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور وفاقی وزراءسرفراز بگتی اور مرتضیٰ سولنگی نے اپنے الگ الگ بیانات کے ذریعے دہشت گردی کے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ پوری قوم دہشت گردی کیخلاف جنگ میں متحد ہے۔ انکے بقول دہشت گردی کے بڑھتے واقعات سے ہر شخص پریشان ہے۔ نگران وزیراعظم نے آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ افغانستان سے امریکی اور دوسرے نیٹو ممالک کے فوجی اور سویلینز کو نکالنے اور کابل کے اقتدار میں طالبان کے واپس آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا ازسر نو آغاز ہوا۔ یہ وارداتیں بتدریج بڑھتی رہیں اور ہنوز جاری ہیں جن میں بالخصوص پاکستان کے سکیورٹی اداروں‘ اہلکاروں اور سیاست دانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ روز مستونگ میں ہونیوالی دہشت گردی بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ کابل کی عبوری طالبان حکومت کی جانب سے دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد پاکستان کا ردعمل سامنے آنے پر اگرچہ ہر بار یقین دلایا جاتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کی سلامتی کیخلاف استعمال نہیں ہونے دی جائیگی مگر زمینی حقائق اسکے قطعی برعکس ہیں اور افغانستان کے اندر سے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر حملے کرنے کے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں جبکہ افغانستان کے اندر سے ہی دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر یہاں دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں جو کابل انتظامیہ کی آشیرباد کے ساتھ افغان سرزمین پر ہی بھارتی ایجنسی ”را“ سے دہشت گردی کی تربیت اور کمک حاصل کرتے ہیں اور انہوں نے افغانستان میں ہی اپنے محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق ہے جنہیں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں افغانستان سے پاکستان آنے کی بھی کھلی چھوٹ ملی اور پاکستان کی جیلوں سے بھی انہیں رہائی ملی جبکہ ایک جیل توڑ کر ٹی ٹی پی کے سینکڑوں کارکن باہر آئے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں زیادہ تر یہی لوگ ملوث ہیں جو پاکستان کی سلامتی کو بھی کھلم کھلا چیلنج کرتے ہیں اور پاکستان کی سلامتی کے اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں جبکہ وہ پاکستان کے پرچم کی توہین کے واقعات میں بھی ملوث ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کی امن عمل کی کوششوں کے نتیجہ میں افغانستان نیٹو فورسر کے قبضہ سے آزاد ہوا اور طالبان کو کابل کے اقتدار میں واپس آنے کا موقع ملا مگر انکی جانب سے پاکستان کیلئے ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا آنے کے بجائے بھارت ہی کی طرح پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کیا جانے لگا۔ طالبان نے پاک افغان سرحد پر لگی باڑ اکھاڑ دی اور اس دوران وہ پاکستان کیلئے تضحیک آمیز الفاظ استعمال کرتے نظر آتے رہے۔ یہی طالبان کابل میں پاکستان کے سفارتخانے پر بھی حملہ آور ہوئے جس کے بعد انہوں نے کابل انتظامیہ کی سرپرستی میں غیرقانونی طور پر سرحد عبور کرکے پاکستان آنے کا سلسلہ شروع کیا اور یہاں دہشت گردی اور خودکش حملوں کے ذریعے پاک دھرتی کو انسانی خون سے رنگین کرنا شروع کیا۔ یہ انتہاءپسند عناصر پاکستان کے ساتھ جنگ بندی اور ہتھیار پھینکنے کے متعدد معاہدے بھی کرچکے ہیں مگر کسی ایک معاہدے پر بھی یہ عمل پیرا نہیں ہوئے اور پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ اس امر کے بھی داعی ہوتے ہیں کہ سو سالہ ڈیورنڈ لائن معاہدے کی میعاد مکمل ہو چکی ہے اس لئے اب ڈیورنڈ لائن کا کوئی وجود نہیں رہا۔ اسی تناظر میں وہ افغانستان سے کھلم کھلا پاکستان میں داخل ہونا اپنا استحقاق گردانتے ہیں اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر اپنا حق جتاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں دہشت گردی کا بھی اسی بنیاد پر جواز نکالتے ہیں جس کیلئے وہ افغانستان میں اپنے ہاتھ آیا ہوا امریکی اسلحہ استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان اسی تناظر میں کابل انتظامیہ اور امریکہ کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکا ہے اور یہ بھی باور کرا چکا ہے کہ ٹی ٹی پی کی یہ شر انگیزی اور دہشت گردی کا تسلسل پاکستان ہی نہیں‘ پورے علاقے کی سلامتی کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے۔ یقیناً اسی بنیاد پر گزشتہ روز افغانستان میں تعینات امریکی نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ نے بھی امریکی تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی علاقائی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ انہوں نے اس امر کی بھی تصدیق کی کہ پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے بھی گزشتہ روز کابل انتظامیہ سے دوبارہ اس امر کی یقین دہانی کرانے کیلئے کہا گیا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے جبکہ پاکستان کے اس باربار کے احتجاج پر کابل انتظامیہ نے پھر یہی رسمی یقین دہانی کرائی کہ افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہوگی۔ اس یقین دہانی کی بنیاد پر پاکستان نے سربمہر کیا گیا طورخم گیٹ اور پاک افغان سرحد کھولنے کا فیصلہ کیا جبکہ اسی کے راستے کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان میں داخل ہو کر یہاں دہشت و وحشت کابازار گرم کرتے ہیں۔ گزشتہ روز کے مستونگ حملے کے بعد تو کابل انتظامیہ کو سخت وارننگ دینے کی ضرورت ہے چہ جائیکہ افغانستان سے منسلک سرحد کھولنے کافیصلہ کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو آج بھارت ہی نہیں‘ افغانستان کی جانب سے بھی سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں جن سے نمٹنے کیلئے محض رسمی احتجاج کافی نہیں۔ اس خطے میں کالعدم ٹی ٹی پی کے پیدا کردہ حالات علاقائی اور عالمی امن کی داعی عالمی قیادتوں اور اقوام متحدہ کیلئے بھی لمحہ¿ فکریہ ہونے چاہئیں۔