شدت پسندی بمقابلہ عالمی انتہا پسندی
افغان طالبان کے حالیہ قبضے سے یقیناً تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان میں موجود دیگر شدت پسند متاثر ہوں گے۔ ٹی ٹی پی پاک افغان سرحد پر پوری طرح کام کر رہی ہے اور داعش کے ساتھ مل کر وہ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہی ہے۔ اس ضمن میں میں نے سیر حاصل مطالعہ کیا ہے۔ قارئین اور حکومت کے پیش خدمت ہے۔ پاکستان بدقسمتی سے بہت سے عوامل کی وجہ سے بنیاد پرستی کی بد ترین تاریخ سے گزر رہا ہے۔ میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے بارے میں خبردار کرتا رہا ہوں کیونکہ اس کی جڑیں سوویت یونین اور افغانستان کے درمیان جنگ کے دوران جہاد میں پائی جاتی ہیں۔ جب میں وزیر داخلہ تھا اسوقت میری تقریر کا ایک اقتباس ہے اور یہ آج بھی موقع محل کے عین مطابق ہے اور پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے موزوں ہے
افغانستان پاکستان خطے میں انتہا پسندی اس وقت شروع ہوئی جب ہم نے سابقہ سوویت یونین اور افغانستان کے درمیان جنگ کے دوران "جہاد میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا"۔ سوویت یونین سے لڑنے کے لیے ہزاروں جہادی پاکستان میں اترے اور جنگ کے بعد ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ اور یہ دیکھا گیاکہ طالبان کا ارتقا ہورہا ہے اور شدت پسندی مسلسل پھیل رہی ہے۔ جب جنگ ختم ہوئی تو اس خطے میں 300 مدرسے تھے اور جب پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو یہ تعداد بڑھ کر 23000 ہو گئی تھی۔ تمام مدارس دہشت گردی میں ملوث نہیں تھے لیکن ان میں پڑھنے والوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مذہب اور غربت دو اہم چیزیں تھیں ، اور "جب یہ مل جائیں تو یہ بہت مہلک ہو سکتی ہیں اور اسی کا ہمیں سامنا کرنا پڑا"۔ بچوں کو پندرہ بیس ہزار روپے میں بھرتی کیا گیا تھا اور انہیں خودکش بمبار کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ ہماری افواج کا شکریہ ، جو انہیں اچھی طرح سنبھالنے میں کامیاب رہیں اور پاکستان میں خودکش حملہ آوروں کی تعدد کم ہوئی۔
میں نے یہ بھی کہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیموں کے اب کئی بکھرے ہوئے الگ الگ گروہ ہیں۔ پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا تھا جب انتہا پسندی بڑھ رہی تھی ، خاص طور پر مسلم اکثریتی ممالک کے کچھ لوگوں کی طرف سے انتہاء پسندی کو ایک خاص مقصد کے تحت پھیلایا جا رہا تھا ہمیں ڈی ریڈیکلائزیشن پروگرام کی ضرورت ہے اور میں بین المذاہب ہم آہنگی کا بہت مضبوط حامی ہوں ۔گویا کہ مذہب کی بنیاد پر تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے ، میں تہذیبوں کا تصادم دیکھ رہا ہوں۔ انتہا پرستی کا ہمارا پہلا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب ہم نے اپنی کاؤنٹی سے پراکسی وار کی اجازت دی اور مدارس کی دوڑ مختلف مذہبی مکاتب فکر سے شروع کی گئی جن میں سے کچھ کو لیبیا اور کچھ کو سعودی عرب نے اور تیسرے دھڑے کو ایران کی حمایت حاصل تھی۔ ان میں سے کچھ مدارس کی طرف سے انتہا پسندی سامنے آئی۔ دونوں طالبان کے مضبوط دھڑے جامعہ دارالعلوم ، اکوڑہ سے تعلیم یافتہ ہیں جہاں طلبہ کو ایک خاص نصاب پڑھایا جاتا ہے جو کہ انتہا پسندی اور بعد میں تشدد کا باعث بنتا ہے۔
میں نے بطور وزیر داخلہ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے دھڑوں کو ایک نصاب پر متفق کر لیاتھا اور اس متفقہ نصاب کو نیشنل ایکشن پلان کے اعلیٰ ترین ادارے کے سامنے رکھا گیا تھا لیکن تمام سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر کے مکمل معاہدوں اور اتفاق رائے کے باوجود یہ ایجنڈا ابھی تک نافذ نہیں ہوا۔ یہ عمل انتہا پسندی کے خاتمے کے حوالے سے ہمارے غیر سنجیدہ قومی رویوں کو ظاہر کرتا ہے۔ تمام فریقوں کی طرف سے ایک تجویز کردہ اور متفقہ معاہدہ طے پایا جس کے تمام نکات کو تسلیم کرنے کے بعد اس پر دستخط کیے گئے۔اس معاہدے کو عوامی معلومات کے لیے پیش کررہا ہوں۔ یہ حکومت پاکستان اوراتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے مابین معاہدہ ہوا تھا۔جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت پاکستان مخلصانہ طور پر چاہتی ہے کہ دینی مدارس سے باہر آنے والے طلباء کو زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں مواقع ملیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ، حکومت پاکستان اور آئی ٹی ایم پی(اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان) کے درمیان 7 اکتوبر 2010 کو ایک معاہدہ کیا گیا تھا جس پر دونوں فریقوں نے مندرجہ ذیل نکات پر اتفاق کیا تھا۔ آئی ٹی ایم پی کی قیادت نے میٹرک کے نصاب میں لازمی عصری مضامین شامل کرنے پر اتفاق کیا تھایہ (ثانوی عامہ کے برابر) اور انٹرمیڈیٹ (ثانیہ خاصہ کے برابر) ہوگا۔ معاہدے کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ آئی ٹی ایم پی کے تمام پانچ بورڈز مذہبی تعلیم کے مندرجات کو ڈیزائن اور مرتب کرنے کے لیے آزاد ہوں گے جبکہ لازمی مضامین حکومت کے مقرر کردہ نصاب کے مطابق ہوں گے۔اس معاہدے کا تیسرا نکتہ یہ تھا کہ آئی ٹی ایم پی کے پانچ بورڈز کو دیگر بورڈز کی طرح ایکٹ آف پارلیمنٹ ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے تسلیم کیا جائے گا۔
چوتھے نکتے میں کہا گیا تھاکہ قانونی حیثیت جانچنے کے بعد آئی ٹی ایم پی کے پانچ بورڈز کو وزارت تعلیم سے جوڑا جائے گا۔ پانچواں نکتہ یہ تھاکہ یکساں اور معیاری تعلیم اور امتحان کے حصول کے لیے حکومت پانچ آئی ٹی ایم پی بورڈز کی نصاب کمیٹی میں سے ہر ایک پر دو نامزد افراد کا تقرر کرے گی۔ چھٹے نکتہ میں طے کیا گیا تھا کہ حکومت جو مدارس کے بارے میں کوئی معلومات حاصل کرنا چاہتی ہے وہ آئی ٹی ایم پی/ممبر بورڈ سے رجوع کرے گی۔ کسی بھی مدرسہ کے خلاف شکایت پر متعلقہ آئی ٹی ایم پی بورڈ کو اعتماد میں لیے بغیر کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اور ساتویں نکتے میں اس بات پراتفاق کیا گیا تھا کہ کوئی بھی مدرسہ کوئی ایسا ادب یا لٹریچر نہیں پڑھائے گا یا شائع کرے گا جو عسکریت پسندی کو فروغ دیتا ہو‘ فرقہ واریت کو پھیلاتا ہو۔ ہر مدرسہ 1860 کے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کی پابندی کرے گا جیسا کہ 2005 کے آرڈیننس XIX میں ترمیم کی گئی ہے ، بشرطیکہ اس میں موجود کوئی بھی چیز مختلف مذاہب یا مکاتب فکر کے تقابلی مطالعے یا قرآن مجید ، سنت کے احاطہ کردہ کسی دوسرے مضمون کے مطالعے کو نہیں روک سکے گی۔ معاہدے کے آٹھویں نکتے میں کہا گیا تھاکہ تعلیم کے معیار ، یکساں نصاب اور امتحان کے معیار کو یقینی بنانے کے لیے آئی ٹی ایم پی اور حکومت کے درمیان مشاورت سے ایک "ریگولیٹری باڈی" قائم کی جائے گی۔ مجوزہ ادارہ کو اس کے نام کے ساتھ قائم کرنے پر غور آج سے 30 دن کے اندر ختم ہو جائے گا۔ اورغیر ملکی طلباء کی رجسٹریشن کو وزارت داخلہ کے ذریعے منظم کیا جائے گا۔ آخری نکتہ یہ تھا کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ کا مسودہ آئی ٹی ایم پی کی مشاورت سے ہوگا اور کوئی بھی تبدیلی اتفاق رائے سے نافذ ہوگی۔ میری خواہش تھی کہ یہ معاہدہ قانون سازی میں تبدیل ہو جاتا یا اس پر قانون سازی ہو جاتی اور ہم ایک ریگولیٹری نظام کے تحت اپنے تعلیمی نظام کو کنٹرول کرتے تو ملک میں فرقہ وارایت کا خاتمہ ہو سکتا تھا اور اس مذہبی ہم آہنگی کو فروغ ملتا۔
اب ہمارے قومی مفادات دوسری ترجیح بن گئے ہیں۔ ہم مسلم دنیا میں وہ ملک ہیں جہاں مذہب اور انتظامی امور متوازی چلتے ہیں جس کانتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ طالبانائزیشن تشدد کی ایک انتہائی شکل ہے۔ افغان طالبان کی طرف سے افغانستان پر قبضہ سے ان مذہبی دھڑوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو افغان طالبان اور پاکستانی طالبان ٹی ٹی پی سے ملتے جلتے نظریات رکھتے ہیں ان نظریات کے حامل ہیں۔ داعش اور طالبان کی طرف سے انتہا پسندی کا انفیکشن مدارس سے ہوتا ہوا نوجوان نسل میں سرایت کرگیا ہے لیکن اس کے بدترین اثرات سابق فاٹا اور بلوچستان پر بھی ہوں گے جہاں بھارت اور مغرب نے پہلے ہی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے سرنگیں بنا رکھی ہیں۔ پاکستان میں انتہا پسندی جاری ہے اور یہ ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اب پاکستان میں شرعی قوانین بڑھانے کے مطالبات منوانے کی کوشش کی جائے گی ۔حکومت کو اس مشن کے ہینڈلرز سے نمٹنے کے لیے جوابی حکمت عملی تیار رکھنی چاہیے نہیں تو اندرونی طور پر ہمیں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہمیں اس بات پر بھی سوچنا ہے کہ کیا کبھی ہم نے مذاہب کے مابین نفرتوں کو ختم کرنے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے ہیں اورکیا ہم نے کبھی بین الاقوامی اور مقامی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف جانے کی کوشش کی ہے؟
٭…٭…٭