جمعرات‘ 8؍ صفر‘ 1443ھ‘ 16؍ ستمبر2021ء
وزیر اعلی، بلوچستان کیخلاف 16 اپوزیشن ارکان نے تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی
چلو جی یہ اتحاد مبارک ہو منتشر اپوزیشن ارکان اسمبلی کو جو اس سے پہلے بھی ایسی کوشش کر چکے ہیں مگر کامیابی کا جام ان کے لبوں تک نہیں پہنچ سکا اور وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ اب ایک بار پھر اپوزیشن نے انگڑائی لی ہے۔ دیکھتے ہیں اس بار کیا ہوتا ہے۔ ویسے ہوتا تو وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ مگر جام کمال اور ان کی حکومت 3 سالوں میں وہ کچھ نہ کر سکی جو کرنا چاہئے تھا۔ باقی علاقوں کی بات چھوڑیں۔ صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ شہر کو ہی دیکھ لیں وہاں کی کیا حالت ہے۔ ماسوائے ایک آدھ وی آئی پی سڑک کے باقی سب سڑکوں کی حالت ابتر ہے۔ نالیاں اٹی ہوئی ہیں۔ صفائی کا نظام ابتر ہے۔ شہر میں سفر کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ سوائے پیدل چلنے کے اور کوئی آسان طریقہ نہیں تجاوزات نے شہر کو بدنما کر دیا ہے۔ ارکان اسمبلی اور وزیر جو عوام کے نمائندہ ہیں سب آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ کسی کو عوامی مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ بقول شاعر
اب تو بیزاریٔ حالات یہاں تک پہنچی
سامنے جام کے اک رند کو سوتے دیکھا
یہاں تو پوری کابینہ ہی سوئی ہوئی ہے۔ شاید اسی لیے جاگنے والے ارکان اسمبلی نے جام حکومت پر کاری وار لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کی روسے دیکھا جائے تو ایسا نہیں لگتا کہ جام حکومت کو ہٹایا جا سکے۔ مگر نیرنگیٔ دوراں کی سیاست کو مدنظر رکھیں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بلوچستان کی حکومت بھی مخلوط ہے تو بلوچستان اپوزیشن بھی بھان متی کا کنبہ ہے۔ ایسے میں شہ مات بہت مشکل لگ رہی ہے۔ آگے اوپر والا جانتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
ڈالر کی اونچی اڑان، روپے کی بے قدری سے معیشت بدحال
یہ بات تو طے ہے کہ جب جب ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو گا، اس کی اڑان میں تیزی آئے گی۔ ہمارے ذمہ واجب الادا قرضوں کا حجم بھی اسی رفتار سے بڑھے گا۔ ملکی معیشت مزید بدحال ہوگی۔ یہ کوئی الجبرے کا لاینحل مسئلہ یا سوال نہیں۔ عام حساب کتاب کی بات ہے۔ اس وقت ڈالر 170 سے اوپر جا چکا ہے مگر ہمارے معاشی ماہرین اور وزیر خزانہ نجانے کس جہاں میں رہتے ہیں۔وہ روزانہ عوام کو اپنی طرف سے جاری کردہ من گھڑت اعداد و شمار کے مرتب کردہ نتائج دکھا کر معیشت کی بہتری کی کہانی سناتے ہیں جبکہ حقائق اور حالات اس کے برعکس ہیں۔ اگر ہماری معیشت ترقی کر رہی ہے تو ڈالر کے مقابلہ میں روپیہ کیوں روزبروز نیچے گرتا جا رہا ہے۔ ہر چیز کیوں مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ بیرونی قرضوں کا حجم کیوں بے تحاشہ بڑھ رہا ہے۔ ان سوالوں کا جواب تو کسی کے پاس نہیں۔ البتہ ملکی معیشت کی ترقی کا فسانہ سب سنا رہے ہیں۔ عوام بھی اب مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے فلسفی بن چکے ہیں۔ وہ ایسے خوش نما خوابوں کے مقابلے میں جاگتی آنکھوں سے دکھائی دی جانے والی تلخ حقیقتوں پر بات کرنے لگے ہیں کیونکہ انہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ آسائش کیلئے دیا تھا، اذیت کیلئے نہیں۔ مگر یہاں تو…؎
تم تو حل تھے میری اذیت کا
تم ہی اب مشکلوں میں ڈال گئے
والی صورتحال سامنے آرہی ہے۔ ڈالر صاحب یعنی اسحاق ڈار میں کچھ اور خوبی تھی یا نہ تھی مگر ڈالر کو کنٹرول میں رکھنے والی خوبی ضرور تھی۔ اور اب یہ حال ہے کہ تین چار وزیرخزانہ، مشیر خزانہ بدلنے کے باوجود ڈالر کسی کے قابو نہیں آرہا۔ اس کا علاج کرنا ہی پڑے گا۔ اس لئے خیالی دنیا سے نکل کر اور حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنا ہونگے۔ اشرافیہ کی بجائے عوام کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭
بھارتی آبی جارحیت جاری ، بغیر اطلاع کے دریائے ستلج میں پانی چھوڑ دیا
بھارت نے جب بھی دریائوں میں اضافی پانی چھوڑنا ہے وہ ضرور چھوڑے گا۔ اگر ہم اس انتظار میں ہیں کہ وہ ہمیں بتا کر پانی چھوڑے تو ایسا نہ پہلے ہوا ہے نہ آئندہ ہو گا۔ ستلج بیاس اور راوی کا پانی بھارت استعمال کرتا ہے۔ ان دریائوں سے پانی کا ایک قطرہ بھی پاکستان نہ جائے۔ اس پالیسی کے تحت اس نے ان دریائوں پر ڈیم بنائے ہیں۔ ان کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بڑے آبی ذخائر تعمیر کئے ہیں۔ اس کے باوجود جب موسم برسات آتا ہے ڈیم اور آبی ذخائر بھر جاتے ہیں تو بھارت یہ اضافی پانی پینے سے تو رہا۔ اس کے پاس اور کوئی راہ نہیں بچتی اور وہ پانی چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ تو اس کی رام کتھا ہے۔ اس کے برعکس ہماری الف لیلیٰ یہ ہے کہ ہم آج تک یہ اضافی پانی جو بھارت سے آتا ہے سیلاب کی تباہی مچاتا ہے کو ذخیرہ کرنے کی منصوبہ بندی بھی نہیں کر سکے۔ ہم ہر سال سیلاب سے تباہی کی کہانی تو سن لیتے ہیں مگر کیا مجال ہے جو اس سے بچنے کی کوئی کوشش کریں۔ سچ کہیں تو ہمارے حکمران اور بیورو کریسی نے سیلاب کو بھی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ مخیر حضرات اور بیرون ملک سے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے جو کچھ آتا ہے ان تک تو نہیں پہنچتا البتہ تجوریوں میں ضرور جمع ہو جاتا ہے۔ سال کے بیشتر حصے میں یہ دریا خشک ہوتے ہیں اگر اس وقت ان کے اردگرد آبی ذخائر تعمیر کر لیے جائیں تو برسات میں آنے والا سیلابی پانی یہاں جمع ہو سکتا ہے جو بعدازاں کئی مقاصد کیلئے کام لایا جا سکتا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ بھارت کو کوستے ہیں اور اپنی کوتاہیوں پر نظر تک نہیں ڈالتے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت تو ہمارا دشمن نمبر ون ہے وہ بھلا ہمیں نقصان پہنچانے سے کیوں باز رہے گا۔
٭٭٭٭٭٭
چنگ چی رکشوں میں کمی کا فیصلہ
اگر ایسا ہو گیا تو کم از کم عوام کو اس پر شور، ٹریفک کے قواعد و ضوابط سے آزاد سواری کے عذاب سے نجات مل جائے گی۔ چنگ چی رکشہ بے شک سستی سواری ہے۔ عوام میں مقبول بھی ہے۔ یہ تانگوں کے متبادل کے طور پر دیکھتے ہی دیکھتے شہروں اور دیہات میں مقبول ہوئی۔ مگر برا ہو ہماری بدعملی کا کہ کسی ادارے نے اس کو اپنے دائرے قانون میں لانا ضروری نہیں سمجھاجس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اتنی سواریاں نہیں جتنے یہ چنگی چی رکشے ہیں۔ اس کے ڈرائیور بھی کم عمر لڑکے ہی ہوتے ہیں۔ جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتا۔ پہلے تو یہ 6 سواریوں تک محدود تھی اب 8 سے 10 لوگ اس میں سوار ہوتے ہیں اور ڈرائیور ٹریفک قوانین کو چنگ چی کے پہیوں تلے روندتے ہوئے سڑک پر اسے بے دریغ دوڑاتے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے۔ مگر یہ ریس لگاتی سواریوں سے لدی پھندی گاڑیاں ہوائی جہاز کی طرح اِدھر اُدھر ڈولتی پھرتی پھرتی ہیں۔ اب محکمہ ٹرانسپورٹ نے ان رکشوں کا معاملہ روڈ سیفٹی اتھارٹی کے سپرد کر دیا ہے جو ان رکشوں کے متعلق قانون سازی کرے گی تو جناب اب واقعی بہت ہو گیا اب ان خلائی راکٹوں کو بھی حدود و قیود کا پابند بنایا جائے۔ بس ایک بات کا خیال رکھا جائے کہ عوام کو اس سستی سفری سہولت سے محروم نہ کیا جائے۔ ہاں اس میں بہتری ضرور لائی جائے تاکہ سڑکوں پر ان کا اژدھام کنٹرول میں رہے۔
٭٭٭٭٭٭