افغانستان کے معاملہ میں پاکستان کو امریکی ڈکٹیشن
امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کرے جب تک طالبان خواتین کو حقوق نہیں دیتے اور افغانستان سے نکلنے کے خواہش مندوں کو جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس سلسلہ میں امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پہلی بار ارکان کانگرس کے سوالوں کے جواب دیئے اور کہا کہ پاکستان کا افغانستان میں کردار رہا ہے‘ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعاون بھی کیا ہے اور وہ ہمارے مفادات کیخلاف بھی رہا۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بنیاد کیا ہونی چاہیے‘ اس کا جائزہ آنیوالے ہفتوں میں لیا جائیگا۔دوسری جانب امریکی کانگرس کے ارکان نے اپنی حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستان کیخلاف سخت رویہ اپنائے‘ افغانستان کے معاملہ پر کانگرس کی کمیٹی کے اجلاس کے دوران ڈیموکریٹک ارکان بل کیٹنگ اور جوکین کاستر ونے الزام عائد کیا کہ افغانستان میں پاکستان کا کردار دہرا ہے۔اجلاس میں بلنکن کو امریکی ارکان کانگرس کی جانب سے پاکستان کے حوالے سے کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے پاکستان کے حوالے سے سخت پالیسی اپنانے کا تقاضا کیا اور امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن جوکین کاسترو نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ امریکہ پاکستان کا اہم غیرنیٹو اتحادی کا درجہ ختم کرنے پر غور کرے۔
ہمارا اب تک یہی المیہ رہا ہے کہ قائداعظم کے انتقال کے بعد بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں ہماری قومی خارجہ پالیسی کی سمت کبھی درست نہیں رہی۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ماسکو نے سوویت یونین کے باضابطہ دورے کی دعوت دی جسے ٹھکرا کر لیاقت علی خان واشنگٹن سدھار گئے جہاں سے انہوں نے سوویت یونین کو مکہ لہرا کر دکھایا اور پاکستان کا وزن امریکی پلڑے میں ڈال دیا جبکہ امریکہ نے کبھی پاکستان کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار نہیں کئے‘ نہ کبھی اسکی آزادی اور خودمختاری کی پاسداری کی جو عالمی برادری میں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعلقات کا بنیادی اصول ہوتا ہے۔ امریکہ ہمیشہ سے اپنے تئیں سپرپاور ہونے کے زعم میں مبتلا رہا ہے اور اس تناظر میں وہ اپنی سلامتی و خودمختاری کے تحفظ کے نام پر کسی بھی ریاست پر حملہ آور ہونا یا اسکے معاملات میں مداخلت کرنا اپنا حق گردانتا ہے۔ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنا اور اسکی استعداد بڑھانا بھی اپنا حق گردانتا ہے اور بذات خود وہ ایٹمی ٹیکنالوجی کا سودا گر بھی ہے مگر کسی دوسرے ملک کا ایٹمی قوت بننا اسے قطعاً گوارا نہیں چنانچہ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے جرم میں دوسرے ممالک پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگوانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس نے دوسرے ممالک کو این پی ٹی اور سی ٹی بی ٹی کی شکل میں ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدوں کے ساتھ باندھ رکھا ہے مگر ان معاہدوں کی خود امریکہ نے کبھی پاسداری نہیں کی۔ اسی طرح عالمی سطح پر اور مختلف خطوں میں طاقت کا توازن بگاڑنے میں خود امریکہ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان کے ساتھ اسکے تعلقات کا معاملہ تو آنکھ مچولی والا ہے۔ ہم ہمیشہ امریکی اتحادی ہونے کے دعویدار رہے مگر اپنے دفاع و ترقی کیلئے جب بھی پاکستان کو امریکہ کی معاونت کی ضرورت پڑی‘ وہ ہمارے ساتھ طوطا چشمی کرتا نظر آیا۔ 71ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکہ نے اپنے چھٹے بحری بیڑے کی شکل میں پاکستان کو کمک فراہم کرنے کا اعلان کیا‘ مکتی باہنی کی سازش کے تحت بھارت نے پاکستان کو دولخت کردیا مگر امریکی بحری بیڑا اسکی کمک کو نہ پہنچ سکا اور پھر 70ء کی دہائی میں پاکستان کی معاونت سے افغان مجاہدین کی کمک حاصل کرکے امریکہ نے سرد جنگ میں سوویت یونین کو تاراج کیا‘ نتیجتاً سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اور اس طرح دوسری سپرپاور امریکہ کے راستے سے ہٹ گئی مگر امریکہ نے اسکے بعد پاکستان ہی نہیں‘ افغان مجاہدین کے ساتھ بھی طوطا چشمی کی اور انہیں حالات کے تھپیڑوں کی نذر کر دیا چنانچہ افغان مجاہدین نے طالبان کے قالب میں ڈھل کر انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرلیا۔
اس پر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ جو بھارت 80ء کی دہائی تک امریکہ کیخلاف سامراج مردہ باد کے نعرے لگاتا اور لگواتا تھا وہ 2001ء میں سانحہ نائن الیون کے بعد یکایک امریکہ کی آنکھ کا تارہ بن گیا۔ پاکستان نے نیٹو فورسز کی جانب سے افغان دھرتی پر شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ میں امریکی ایما پر ہی اسکے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کیا جس کے ماتحت ایئربیسز سمیت امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرکے پاکستان نے اپنی سلامتی اور خودمختاری تک دائو پر لگا دی اور اپنے اس کردار کے ردعمل میں ہی پاکستان بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کی بھینٹ چڑھنے لگا مگر امریکہ پاکستان کے کردار پر شک کا اظہار کرتا اس سے ڈومور کے تقاضے بھی کرتا رہا اور ڈرون حملوں کے ذریعے اسکے شہریوں کا خونِ ناحق بھی بہاتا رہا۔
پاکستان کے ساتھ امریکی کروفر کا یہ سلسلہ بش جونیئر سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد اقتدار تک برقرار رہا جبکہ اسکے برعکس پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کی مکمل سرپرستی کرکے اسے علاقے کا تھانیدار بنانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ بالآخر پاکستان کو مجبور ہو کر امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار پر نظرثانی کا سوچنا پڑا اور اسکی جانب سے ٹرمپ کے دور میں امریکہ کیلئے ’’نومور‘‘ کی صدا بھی بلند ہوئی جبکہ امریکہ نے طوطا چشمی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی فوجی گرانٹ اور سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی امداد بھی روک لی۔ پھر امریکہ نے افغان دھرتی پر اپنی مسلسل ناکامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی فوجوں کے انخلا کا فیصلہ کیا اور انکی محفوظ واپسی کیلئے امریکہ کو پھر پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑی تو پاکستان نے پھر اس کیلئے دیدہ و دل فرشِ راہ کردیئے اور اسکے ساتھ طالبان کے مذاکرات کی راہ ہموار کرکے افغان امن عمل کی جانب گامزن کر دیا۔ پاکستان کے اس مثبت اور مؤثر کردار کے نتیجہ میں ہی امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدہ اور اسکی بنیاد پر امریکی فوجوں کا افغانستان سے پرامن انخلا ممکن ہوا جبکہ امریکہ نے اسی کو اپنے لئے راہ عافیت جان کر جلدبازی میں افغانستان سے اپنا انخلا کیا اور افغان سرزمین انہی افغان طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جن کے ساتھ وہ 20 سال تک برسرِ پیکار رہا ہے۔
یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ افغان طالبان کے دلوں میں ہمارے لئے نرم گوشہ ہے جو ہمارے دشمن بھارت کو بھی خبردار کر چکے ہیں کہ وہ افغان سرزمین پاکستان کی سلامتی کیلئے استعمال کرنے کی آئندہ کبھی جرأت نہ کرے۔ چنانچہ ہمیں اب اپنے بہترین قومی مفادات اور اپنی سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کا سوچنا اور اپنی قومی خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنا ہے جس کیلئے آج ہمارے پاس نادر موقع بھی موجود ہے کیونکہ افغانستان پر طالبان کا غلبہ ہونے کے بعد خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال کے تناظر میں اس خطے کے تمام ممالک بشمول چین‘ روس‘ ایران‘ ترکی کی نگاہیں پاکستان پر مرکوز ہیں جو افغانستان میں امن کی بحالی کے حوالے سے پاکستان کے کردار کے معترف بھی ہیں اور اس معاملہ میں پاکستان کے ساتھ تعاون پر آمادہ بھی۔ اس کا عندیہ اس سے بھی ملتا ہے کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے رواں ماہ میں گزشتہ روز دوسری بار خود وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور ان سے افغانستان کے مستقبل اور طالبان حکومت سے تعلقات کے معاملہ میں تبادلۂ خیال کیا۔
اسکے برعکس امریکہ ہمیں آج بھی آنکھیں دکھاتا اور ڈومور کے تقاضے کرتا نظر آتا ہے۔ ہمیں بہرصورت اب ملکی سلامتی کے تقاضوں اور بہترین قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر ہی افغانستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی پالیسی طے کرنی ہے۔ امریکہ سے ہمیں کبھی خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے اور آج اس خطہ میں امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ توڑنے کیلئے چین‘ روس‘ پاکستان‘ ترکی اور ایران کے بلاک کی شکل میں طاقت کا توازن قائم کرنے کا موقع مل رہا ہے تو ہمیں اسکی راہ ہموار کرنے میں معاون بننا چاہیے۔ یہی ہماری سلامتی کا تقاضا اور بہترین مفاد میں ہے۔