رمیز راجہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین بنے ہیں۔ افتتاحی پریس کانفرنس میں انہوں نے اپنے آنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان کی نظر تین سال کی مدت پر نہیں بلکہ ایکشن پر ہے۔ رمیز راجہ نے کرکٹ کے بنیادی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کھیل کا معیار بلند کرنے پر زور دیا ہے۔ چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے ساتھی کھلاڑیوں کیلئے نیک جذبات کا اظہار بھی کیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ تنقید کو تو خوش آمدید کہیں گے لیکن الزام تراشی یا مناسب زبان استعمال کرنے والوں کیخلاف بھی ایکشن کریں گے۔ وہ کہتے ہیں میں گالیاں کھانے نہیں آیا، یہ بھی اچھی بات ہے کہ انہوں نے واضح کر دیا ہے لیکن پھولوں کے ہار پہننے کیلئے تو دوسروں کی خوشیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ کھیل اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کیلئے انقلابی اقدامات اٹھانا پڑتے ہیں۔
کوئی بھی چیئرمین اس لیے نہیں آتا کہ لوگ اسے برا بھلا کہیں بلکہ ہر چیئرمین اس عزم کیساتھ آتا ہے کہ ملکی کرکٹ کی خدمت کرے یہ الگ بات ہے کہ بعد میں وہ اپنی خدمت کرواتا رہے، فوٹوز اترواتا، میڈیا میں جگہ حاصل کرتا رہے یا اپنے دوستوں کی خدمت میں لگا رہے اور تین سال پورے کر کے چلا جائے۔ اس معاملے میں رمیز راجہ کا کیس کافی مختلف ہے۔ ان کی اب تک لاکھوں تصاویر بن چکی ہوں گی، ہزاروں انٹرویوز ہو چکے ہونگے، آٹو گراف دے دے کر یہ شوق بھی پورا ہو چکا ہے۔ اس لیے ان کے سامنے صرف ایک مقصد ہے کہ پاکستان کرکٹ کو درپیش مسائل کیسے حل کرنے ہیں۔ کھلاڑیوں کے معاشی مستقبل کا تحفظ کیسے کرنا ہے اور کھیل کے خالی میدانوں کو کرکٹرز سے کیسے بھرنا ہے۔ انہیں حقائق کے برعکس رپورٹس دینے کا سلسلہ شروع تو ہو چکا ہے جن لوگوں نے یہ رپورٹ بنائی ہے کہ کھلاڑیوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ چھ فرسٹ کلاس ٹیمیں بنانے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ کیا کوئی اس سے اتفاق کر سکتا ہے۔ صرف محکموں کی آٹھ ٹیمیں قائد اعظم ٹرافی کھیلا کرتی تھیں کیا ان سب ٹیموں میں کم صلاحیتوں والے کھلاڑی شامل ہوتے تھے اسی طرح آٹھ ریجنز فرسٹ کلاس کھیلتے تھے کیا ان میں صلاحیت کی کمی تھی۔ گریڈ ٹو کی ٹیمیں اس کے علاوہ تھیں۔ ایسی جھوٹی رپورٹس بنانے والوں کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملکی کرکٹ کو تباہ کیا ہے جو تیس سال سے زائد عمر کے کھلاڑیوں کا راستہ روکے کھڑے ہیں اور کرکٹرز کو کھیلنے کے حق سے محروم کیے ہوئے ہیں۔ دنیا کی بہترین ٹیموں میں شامل کھلاڑیوں کی عمر دیکھیں اور پھر اپنے فیصلہ سازوں پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے صرف اس لیے سینئر کرکٹرز پر دروازے بند کیے ہیں تاکہ کوئی ان سے پوچھنے، سوال کرنے والا نہ ہو یہ بچوں کو سامنے لائیں اور ان کے دل و دماغ پر حکومت کرتے ہوئے درست کو غلط اور غلط کو درست کہنے کے رجحان کو فروغ دیتے ہوئے اپنے معاہدے پورے کرتے رہیں۔ جنہوں نے یہ رپورٹ مرتب کی ہے کیا انہوں نے یہ لکھا ہے کہ کھلاڑیوں کی تعداد کم کیوں ہوئی، آٹے، چینی، کے بعد کرکٹرز کی قلت کا سامنا کیوں ہے۔ کیا یہ رپورٹ مرتب کرنے والے بتائیں گے کہ گذشتہ تین سال میں کتنے نئے کرکٹرز نظام کا حصہ بنے اور کتنے کرکٹرز الگ ہوئے اور کتنے ایسے تھے جو کھیل سکتے تھے لیکن انہیں کوچ بنا دیا گیا کیونکہ کھلاڑیوں کا معاوضہ کم اور کوچز کا زیادہ تھا۔
بات سوال کی ہو رہی تھی تو پہلی پریس کانفرنس میں بھی بہت سے سوالات تھے جو نہ ہو سکے۔ جو صاحب سوالات لینے کی ذمہ داری نبھا رہے تھے شاید انہوں نے ارادتاً کئی لوگوں کو مائیک نہیں دیا یہ وہ صاحب ہیں جنہیں ہر کام میں آئی سی سی کی مثال دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تین سال تک احسان مانی اور وسیم خان کو "میٹھے یا طے شدہ سوال" کرنے والوں کے علاوہ سب سے دور رکھا۔ صحافی اس متعصب پالیسی پر آواز بلند بھی کرتے رہے۔ دیکھتے ہیں کہ رمیز راجہ کیلئے وہ کیا حکمت عملی اپناتے ہیں اور کیا نئے چیئرمین ان کی منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہیں یا پھر اپنی پالیسی تیار کرتے ہیں۔ سوالات لینے کی ذمہ داری نبھانے والے ایک شعبے کے سربراہ پریس کانفرنس کے دوران کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین رمیز راجہ کو رمیز بھائی بھی کہتے رہے وہ آئی سی سی میں کام کر چکے ہیں کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ کارپوریٹ سیکٹر میں "باس" کو بھائی کہا جاتا ہے یا وہ آئی سی سی کے سربراہ کو بھی پریس کانفرنس میں بھائی کہہ کر مخاطب کیا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ملک کے ایک مخصوص علاقے میں پلنے بڑھنے والے بعض افراد کیلئے "بھائی" سب سے بڑھ کر ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بھائی خوش رہے تو کام چلتا رہتا ہے۔
جہاں تک تعلق نامناسب الفاظ اور سخت تنقید کا ہے تو اس میں صحافیوں کے بجائے کرکٹرز ہی بورڈ آفیشلز کیخلاف سخت زبان اور نامناسب الفاظ استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ اس لیے میڈیا کے بجائے نئے چیئرمین کو اپنے ساتھی کھلاڑیوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں قومی ٹیم کے سابق کوچ عاقب جاوید کے بیان کا حوالہ بھی ضروری ہے انہوں نے چند روز قبل کہا تھا "کہیں ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی گھر تو نہیں چلے گئے وہ موجودہ صورتحال میں ہونیوالے نقصان کو کنٹرول نہیں کر سکے، کیا انہوں نے صرف احسان مانی کے دور میں معاملات کو سنبھالا ہوا تھا۔ اب کوئی والی وارث نہیں رہ گیا، آخر چیف ایگزیکٹو آفیسر وسیم خان اور ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی جیسے لوگوں کا آپ نے کیا کرنا ہے۔ یہ جان بوجھ کررمیز راجہ کو آنے سے پہلے ہی متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کرکٹ کے معاملات میں جو کچھ ہوا اس کی ذمہ داری وسیم خان پر عائد ہوتی ہے۔ اب یہ کسی صحافی کے الفاظ نہیں بلکہ قومی ٹیم کے سابق کوچ، ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز لاہور قلندرز عاقب جاوید کے ہیں۔ عاقب جاوید بورڈ کے نئے چیئرمین رمیز راجہ کی پہلی پریس کانفرنس میں بھی موجود تھے۔ کئی اہم سوالات افتتاحی پریس کانفرنس میں وقت کی کمی، کسی کے تعصب یا اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے نہ ہو سکے وہ یہاں سے نئے چیئرمین تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا رمیز راجہ چیف ایگزیکٹو کا عہدہ برقرار رکھیں گے یا پھر ماضی کی طرح چیئرمین ہی سی ای او ہو گا؟
پاکستان میں کرکٹرز طویل دورانیہ کی کرکٹ سے دور ہو رہے ہیں، ریڈ بال کرکٹ میں مہارت کے بغیر بین الاقوامی سطح پر کسی بھی فارمیٹ میں کامیابی مشکل ہوتی ہے۔ کرکٹرز فرسٹ کلاس چھوڑ کر ٹی ٹین کھیلنے بھی چلے جاتے ہیں کیا کرکٹ بورڈ اس حوالے سے بہتر پالیسی تیار کرے گا؟
نئے چیئرمین نے غیر ملکی کوچز میتھو ہیڈن اور فلینڈر کی خدمات حاصل کرنے کیلئے مالی تعاون پر ایک بینک کا شکریہ ادا کیا ہے۔ کیا دہائیوں تک ہزاروں کرکٹرز کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے والے اداروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کیساتھ دوبارہ کوئی شراکت داری کی جا سکتی ہے؟
کیا نچلی سطح پر کھیل کے فروغ اور معیار بلند کرنے کیلئے بیس اوورز کی کرکٹ کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی دی جائے گی؟؟
امید ہے نئے چیئرمین کرکٹ بورڈ ان اہم معاملات پر ضرور توجہ دیں گے۔ انہیں کئی چیلنجز کا سامنا ہے دیکھنا یہ بھی ہے کہ کہیں عاقب جاوید کے خدشات درست تو نہیں۔ بہرحال جن لوگوں نے تین برس میں کھیل کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا ہے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کا احتساب کرتے وقت ان اعلیٰ عہدیداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے جن کے غلط فیصلوں نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ رمیز راجہ کی کامیابی کیلئے دعائیں ہیں کیونکہ بحیثیت چیئرمین کرکٹ بورڈ ان کی کامیابی پاکستان کرکٹ کی کامیابی ہے اور پاکستان کا ہر شہری ملک کے مقبول ترین کھیل کا معیار بلند ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38