سینٹ : پی پی نے زیادتی کے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی مخالفت کردی ، کالا باغ ، اکوڑی ڈیم منصوبوں پر اپوزیشن کا شدید احتجاج
اسلام آباد (نیوز رپورٹر) ایوان بالا میں کالاباغ اور اکوڑی ڈیم کے منصوبوں پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا، ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے ،نامنظور نامنظور کے نعرے ۔ چئیرمین کی رولنگ ، بابر اعوان اور علی محمد خان کی وضاحتیں بھی ارکان کا غصہ ٹھنڈا نہ کر سکیں۔انسانی حقوق کمیشن کی عدم تشکیل پر بھی تحفظات کا اظہار ۔ارکان کے شدید احتجاج کے باعث کچھ دیر تک کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ چیئرمین سینٹ نام لے لے کر سینٹرز سے درخواست کرتے رہے کہ وہ اپنی نشستوں پر بیٹھیںاور ایوان کا ماحول خراب نہ کریں۔ آپ اس ایوان کی عزت ہیں عوام آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ میں رولنگ دیتا ہوں کہ اس کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میںہوگا جب تک صوبے راضی نہ ہوں اس بارے فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایوان بالا کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران صورت حال اس وقت سخت کشیدہ ہوگئی جب سینیٹر مشتاق احمد خان نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ کالا باغ ڈیم اور آکوڑی ڈیم پر ہمارے شدید تحفظات ہیں یہ ڈیمز خیبرپی کے کی معیشت کو تباہ کردیں گے یہ ہمارے پانی کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے جس پر وزیر مملکت علی محمد خان نے کہاکہ کالا باغ ڈیم کی رپورٹ 1988سے ہے حکومت نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔کالا باغ ڈیم یا آکوڑی ڈیم سمیت کوئی بھی ڈیم صوبوں کی مشاورت کے بغیر نہیں بنایا جائے گا ایوان میں سیاست نہ کریں۔ انہوںنے کہاکہ ایسا کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے کہ کالاباغ ڈیم بنایا جائے گاتاہم حکومتی جواب پر اپوزیشن ارکان مطمئن نہ ہوئے اور ایوان میں شدید احتجاج کرتے ہوئے چیرمین ڈائس کے سامنے جمع ہوگئے ۔اس موقع پر چیرمین سینٹ نے رولنگ دیتے ہوئے کہاکہ جب تک چاروں صوبے اور مشترکہ مفادات کونسل کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر راضی نہیں ہونگے اس وقت تک اس ڈیم کی تعمیر نہیں ہوگی۔ رضا ربانی نے کہاکہ ہمیں ایوان کا ماحول درست رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ کالا باغ ڈیم پر تمام صوبوں کی قراردادیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہاکہ خیبر پی کے، صوبہ سندھ اور بلوچستان کالا باغ ڈیم کے مخالف ہیں۔ سندھ اسمبلی میں اس کے خلاف تین قراردادیں منظور ہو چکی ہیں۔ بابر اعوان نے کہاکہ اس ایوان کو پورے پاکستان میں بہت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے انہوں نے کہاکہ تمام متنازعہ منصوبوں کے بارے میں مشترکہ مفادات کونسل میں فیصلہ ہوگا اور وہی فیصلہ قوم کیلئے قابل قبول ہوگا۔ سینٹر سسی پلیجو نے کہاکہ اس وقت ملک میں خواتین کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ لاہور کا واقعہ بربریت کی مثال ہے اس وقت جو قوانین موجود ہیں ان پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے جس پر وزیر مملکت علی محمد خان نے کہاکہ ایسے واقعات کیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے اور اس میں قوانین کی تبدیلی بے حد ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ بچوں اور بچیوں سے زیادتیوں میں ملوث مجرموں کو چوک پر سز ادینی چاہیے انہوںنے کہاکہ وزارت انسانی حقوق تمام معاملات کا بغور جائزہ لیتی ہے اور یہ مسلسل جدوجہد ہے۔ میری تجویز ہے کہ ریپ کے جرم پر مجرم کو چو ک پر بھانسی دینی چاہیے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ قبل ازیں سینیٹر گیان چند نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ وزارت آبی وسائل میں ابھی تک اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی ملازم نہیں ہے جس پر وزیر پارلیمانی امور نے بتایاکہ اقلیتی برادری کا 5 فیصد کوتہ مختص ہے اور اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ علی محمد خان نے کہاکہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو صوبوں کے حقوق کا اتنا خیال ہے تو اپنے دور میں کیا کرتے رہے ہیں ہم بھاگنے والے نہیں ہیں بلکہ سب کو بھگائیں گے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ وفاقی وزیر کی عدم موجودگی کی وجہ سے سوالوں کے درست جواب نہیں مل رہے ہیں۔سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ اس وقت ملک میں انسانی حقوق کمیشن کے ارکان کا تعین نہیں کیا گیا ہے اور ملک میں انسانی حقوق پر کوئی کام نہیں ہورہا ہے یہ حکومت کی مجرمانہ غفلت ہے ۔ وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہاکہ آج ملک میں نہ تو ڈاکو راج ہے اور نہ ہی ریپیسٹ راج ہے۔پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ سی سی پی او کہتے رہے وہ خاتون رات کو باہر گئی کیوں؟ نئے پاکستان سے پیغام دیا گیا کہ خاتون اور بچے تحفظ کے حقدار نہیں، ملزم عابد علی تو کھلے عام پھر رہا ہے، ابھی تک اصل مجرم گرفتار نہیں ہوا۔پیغام آیا ہے کہ سرعام پھانسی دی جائے، میری جماعت اس پر یقین نہیں رکھتی، پورے ملک کی توجہ اس طرف مبذول کی جارہی ہے کہ سرعام پھانسی ہوگی، ضیا دور میں سرعام پھانسی دی گئی، سرعام پھانسی سے جرائم کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھے۔ یہ ایک سرکس تھا جو ضیا الحق نے لگایا تھا، ایک بچے پپو کو ریپ کرنے والوں کو لاہور میں سرعام پھانسی دی گئی، اس کے فوراً بعد ریپ بڑھا اور ساتھ ہی 11 کیسز رپورٹ ہوئے۔ سزا تو ان اہل کاروں کو ہونی چاہیے جو کہتے ہیں کہ عورت کیوں باہر نکلی۔رضا ربانی نے کہا کہ سرعام پھانسی سے معاشرہ مزید ظالم ہوگا، سرعام پھانسی کیا ضیا نے نہیں دی تھی، کیا ریپ اور جرائم ختم ہوگئے تھے؟ اس کا حل سرعام پھانسی میں نہیں ہے، قانون سازی سے کچھ نہیں ہوگا، اگر حکومت سی سی پی او کو ہٹائے گی تو یہ اس سوچ پر طمانچہ ہوگا۔ اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ ریاست ہوگی ماں کے جیسی لیکن یہاں ریاست ڈائن جیسی بن گئی ہے اور ہم آج خوشی سے کہہ رہے ہیں کہ مجرم پکڑے گئے۔سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ این ایچ اے کے وزیر کے مطابق زیادتی کا واقعہ موٹر وے پر نہیں رنگ روڈ پر ہوا ، پھر تو کیپٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) لاہور ذمہ دار ہے۔حکومت سی سی پی او کو بچانے کے چکر میں ہے،اگر سی سی پی او اتنا اچھا افسر ہے ۔ آئی بی نے اس کے خلاف رپورٹ کیوں دی؟ یا تو پھر آئی بی نے غلط رپورٹ دی،سرکاری ملازم کی کوئی معافی نہیں ہوتی، اس کے خلاف ایکشن ہوتا ہے۔تحریک انصاف کی سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن پر آپ نے کیا سزا دی؟ جس پر مشاہد اللہ خان نے جواب دیا کہ آپ کی 2 سال سے حکومت ہے دے دیں سزا، ماڈل ٹاؤن کی جس دن تفتیش ہوگی طاہرالقادری اور عمران خان ملوث نکلیں گے، بلدیہ سانحہ میں ملوث افراد آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں۔تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ میں ایک باپ، بھائی اور بیٹا ہونے کی حیثیت سے شرمندہ ہوں، اورسی سی پی او کے بیان کی بھی میں شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، لیکن سی سی پی او کے استعفے سے آپ کو کیا مل جائے گا؟ اسے کام کرنے دیں، عمر شیخ وہ آدمی ہے جو کبھی فروخت نہیں ہوگا۔صادق سنجرانی نے کوآپریٹو سوسائیز ایکٹ 1965ء میں مزید ترمیم کرنے کا بل کوآپریٹو سوسائٹیز ترمیمی بل 2020ء کو سینٹ کی متعلقہ کمیٹی کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ بل پر آج بدھ تک کمیٹی رپورٹ پیش کرے گی۔ چیئرمین سینٹ نے ایوان بالا کے رواں سیشن کے لئے پینل آف پریذائیڈنگ آفیسرز کے ناموں کا اعلان کر دیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ عام انتخابات کیلئے نئی حلقہ بندیاں نہیں کی جا رہی ہیں۔ مردم شماری کا ڈیٹا نوٹیفائی ہونے کے بعد اس معاملے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ایوان بالا میں حکومت اور مسلم لیگ ن کی جانب سے سانحہ موٹروے میں ملوث درندوں کی سرعام پھانسی کی حمایت کی گئی۔ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے لاہور میں خاتون کے ساتھ زیادتی کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے بڑی سرجری کی ضرورت پر زور دیا اور کہا سی پی او کے بیان سے بہت غلط پیغام گیا۔ ان سے استعفیٰ لیا جائے جبکہ حکومتی اراکین نے استعفیٰ کا مطالبہ غیر ضروری قراردیا۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہاکہ یہ ادارے پاکستان کے عوام کے مفاد کو پیش نظر رکھنے کیلئے وجود میں آتے ہیں۔ ان کا کام پاکستان کے عوام کی نمائندگی کرنا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرنا نہیں ہے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے عوام کا تحفظ کرنے والے اداروں کو کمزور کردیا گیا ہے۔ سینیٹرآصف کرمانی نے کہاکہ کاش آج ایوان کی کاروائی کو معطل کرکے اس مسئلے پر بات کی جاتی تو بہتر ہوتاآج کراچی سے لیکر خیبر تک ہر شخص اس سانحے پر پریشان ہے۔ سینیٹر اورنگزیب اورکزئی نے کہاکہ موٹر وے سانحے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے گذشتہ شب موٹر وے پر ہمارے سینیٹر مرزا آفریدی کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی اور کسی نے بات تک نہیں کی ہے انہوں نے کہاکہ یہ ایوان کا معاملہ ہے انہوں نے کہاکہ سانحہ مہمند کا ایوان میں ذکر نہیں ہوتا ہے۔ کیا وہ انسان نہیں ہیں۔ ایوان میں مشاہد اللہ اور سینیٹر عتیق شیخ میں شدید تلخ کلامی ہوئی۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں، مشرف دور میں دو بڑے واقعات سامنے آئے۔ پولیس کا رویہ عوام دوست ہیں۔ پولیس کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر اے رحمن ملک نے کہا کہ لاہور واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قومی سانحہ ہے، ملک میں قانون کی حکمرانی تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے، میں نے آئی جی پنجاب سے کہا ہے کہ یہ ان کے لئے ٹیسٹ کیس ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینٹ کی کمیٹی نے اس واقعہ کے حوالے سے 30 سوالات پوچھے ہیں، ہمیں خصوصی قانون سازی کرنا ہو گی تاکہ اس طرح کے مجرموں سے نمٹا جا سکے۔ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا ہے کہ سی سی پی او کے ریمارکس کی مذمت کرتا ہوں، لاہور واقعہ کے مجرموں کو عبرتناک سزا ملنی چاہیے۔ پاکستانی خواتین پر فخر ہے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی۔ سیاسی مداخلت نے پولیس کو تباہ کیا۔