افغان طالبان گزشتہ 19 سال سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو افواج کے غاصبانہ قبضہ ختم کرانے کیلئے افغان طالبان نے قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور ایک بار پھر یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ جو بھی عالمی طاقت افغانستان پر قبضہ کرتی ہے اسے انجام کار بے آبرو ہوکر ہی افغانستان سے نکلنا پڑتا ہے۔ آزادی اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کے دوران افغانستان اور پاکستان دونوں دہشت گردی کا بھی شکار رہے۔ پاکستان کی بہادر افواج اور پاکستان کے دلیر عوام نے دہشت گردی کا مقابلہ کرکے اور اس کو شکست دیکر ساری دنیا کو حیران کر دیا جو عالمی قوتیں پاکستان پر یہ الزام لگاتی تھیں کہ پاکستان مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ خود ایک مسئلہ ہے، اب انکی یہ سوچ تبدیل ہو چکی ہے پاک فوج کا ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کامیاب ہوا ہے جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ پاکستان کبھی کسی پرائی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا اور جنوبی ایشیاء میں مستقل اور پائیدار امن کیلئے سنجیدہ کوشش کریگا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے جس کا اعتراف امریکی لیڈر کئی بار کر چکے ہیں۔ افغانستان کے عوام طویل جنگ سے عاجز آچکے ہیں اور وہ افغانستان میں امن کے قیام کے خواہشمند ہیں۔ پاکستان کی نئی سوچ اور نئی پالیسی کی وجہ سے سے افغان امن کیلئے حالات سازگار ہوئے ہیں۔ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے تازہ بیان میں افغان امن کا کریڈٹ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو دیا ہے۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے جو کئی بار تعطل کا شکار ہوئے۔ امریکا میں نئے صدارتی انتخابات ہونیوالے ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ کی شدید خواہش ہے کہ انتخابات سے پہلے افغان طالبان کے ساتھ معاہدے کے مطابق امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں تاکہ امریکی صدر اپنی قوم کو یہ کہہ سکیں کہ انہوں نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دکھایا ہے۔
گزشتہ دنوں دوحہ قطر میں ہونے والے مذاکرات کامیاب رہے ہیں امن کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو افغان طالبان اور افغان حکومت کے وفود کے علاوہ دنیا کے 17 ملکوں کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے مختلف طاقتور ممالک اب افغان امن عمل کیلئے سنجیدہ ہو چکے ہیں۔ امریکہ کی خواہش یہ ہے کہ افغانستان ایک خود مختار جمہوری اور پُرامن ملک بن جائے اور اپنا سیاسی نظام عام انتخابات کے ذریعے تشکیل دے۔ افغان طالبان یقین دہانی کرائیں کہ وہ افغانستان میں کسی دہشت گرد تنظیم کو تربیتی مراکز قائم کرنے اور فنڈز اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ افغانستان ایک پُرامن ملک رہے گا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان چاہتا ہے کہ عالمی طاقتیں ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے ان سے سبق سیکھ کر افغانستان کو حقیقی معنوں میں پُرامن اور مستحکم ملک بننے دیں۔ ایران بھی افغان امن کیلئے سنجیدہ نظر آتا ہے کیونکہ اگر افغانستان میں بدامنی ہو تو اس کے اثرات ایران کے اندر بھی پھیل سکتے ہیں۔ بھارت کی پالیسی یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان اس قدر مضبوط اور مستحکم نہ ہو جائیں کہ وہ بھارت کیلئے خطرہ بننے لگیں۔ اس کی یہ خواہش ہے کہ افغانستان کے اندر بھارت نواز قوتوں کا بھی کوئی کردار ہو جو افغانستان کو متوازن رکھ سکے۔ چین کی خارجہ پالیسی ہمیشہ صاف اور شفاف رہی ہے۔ چین بقائے باہمی کے اصول پر عالمی تعلقات کو قائم کرتا ہے۔ اس کا موقف یہ ہے کہ افغانستان کے عوام اپنے مسائل بیرونی مداخلت کے بغیر حل کریں اور افغانستان سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ملک بن جائے۔
دنیا کے تمام ممالک میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ افغان طالبان قدامت پرستی کو چھوڑ کر انسانی حقوق حق کو تسلیم کریں۔ موجودہ افغان حکومت کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ افغان طالبان آئین انتخابات قانون کی حکمرانی خواتین اور اقلیتوں کے حقوق سیاسی اور شہری آزادیوں کو تسلیم کرلیں اور اپنی پرانی پالیسی میں لچک پیدا کریں تا کہ افغانستان دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح ایک جدید ملک بن سکے۔ افغان طالبان اسلام کے شرعی نظام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے اور وہ افغانستان پر شریعت کے مطابق نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان اعلانیہ طور پر اپنے پرانے موقف پر قائم رہیں گے، البتہ جب ان کو اقتدار دوبارہ مل جائیگا تو اپنی پرانی حکمت عملی میں تبدیلی لائیں گے تاکہ وہ دنیا کے دوسرے ممالک کو مطمئن کر سکیں اور گلوبل ولیج کا حصہ بن سکیں۔ افغان حکومت طالبان پر مکمل سیزفائر کیلئے اصرار کر رہی ہے مگر افغان طالبان اپنے اہداف کے حصول تک دباؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ نے پختہ عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ اس سال دسمبر تک چار ہزار افواج کے علاوہ افغانستان سے باقی تمام افوج نکال لے گا۔ افغان طالبان کا پلڑا چونکہ بھاری ہے وہ جنگ جیت چکے ہیں لہٰذا انہوں نے امن مذاکرات کو کامیاب کرانے کیلئے افغان افواج پر حملوں میں کمی تو کی ہے البتہ جھڑپیں ابھی جاری رکھی ہیں تاکہ ان کا دباؤ موجود رہے اور وہ اپنی زیادہ سے زیادہ شرائط تسلیم کرا سکیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024