پولیس میں سیاسی مداخلت کا تاثر؟

وطن عزیز میں جب بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے، کسی سنگین نوعیت کے جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے یا کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہوتا ہے تو فوری طور پر متعلقہ نظام کو بدلنے کیلئے واویلا شروع ہو جاتا ہے ، سوشل میڈیا سے لے کر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک ، گلی ، محلے اور ’’تھڑے‘‘ سے لیکرایوانوں تک ایسا شور برپا ہوتا ہے کہ ہر طرف سے نظام پر تنقید ہوتی ہے ، انتظامیہ پر طعن ہوتا ہے ، ’’نہیں ملتی پناہ ہمیں جس زمیں پر، اک حشر اس زمیں پر اٹھا دینا چاہیے‘‘ کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔نظام کو فرسودہ اور انگریز کی باقیات قرار دیا جاتا ہے ، انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے ، مساوات اور انسانیت کا دشمن گردانا جاتا ہے۔ وطن کا ہر شہری ’’انقلابی‘‘ بنا نظر آتا ہے۔ نظام کو لپیٹ سمیٹ اور پھر اٹھا کر بحرہند میں پھینک دینے کے عزم کااظہار کرتا ہے لیکن جونہی ہفتہ ، عشرہ گزرتا ہے ، واقعہ کی ’’گرد‘‘ بیٹھنے لگتی ہے تو ساتھ ہی جذبات کے ’’غباروں‘‘ سے ہوا نکلنا شروع ہو جاتی ہے ، شور جنوں تھمنے لگ جاتا ہے۔ پھر ’’وہی چال بے ڈھنگی سی…جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘ کے مصداق اسی ’’گھسے پٹے‘‘ نظام کے ساتھ ہمیں صبح و شام کرنا پڑتے ہیں۔ اب بھی معاملہ اس سے مختلف نہیں۔ 9 ستمبر کی رات گوجرانوالہ جانے کیلئے خاتون اپنے دو بچوں کے ساتھ کار پر ڈیفنس (لاہور) سے نکلی اور لاہور ہی کے تھانہ گجر پورہ کی حدود میں سیالکوٹ موٹروے پر پٹرول ختم ہو گیا جہاں ڈاکوئوں نے خاتون سے ایک لاکھ روپے ، زیورات ، اے ٹی ایم کارڈ چھین لیے اور اجتماعی ’’بداخلاقی‘‘ بھی کی۔ پولیس نے اپنی ’’روایت‘‘ اور ’’فطرت‘‘ کے مطابق کردار ادا کیا۔ وقوعہ کی حدود کا تنازع بھی کھڑا ہوا لیکن سی سی پی او کا ’’جملہ معترضہ‘‘ ’’جلتی پر تیل‘‘ کا کام کر گیا جس پر کافی ’’لے ، دے ‘‘ ہوتی رہی۔ ’’چورن بیچنے والے‘‘ بھی چینلز پر آئے۔ (ن) لیگ پہلے ہی سی سی پی او لاہور کی تعیناتی پر ادھار کھائے بیٹھی تھی۔ اس نے خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ پولیس نظام پر بحث ہونے لگی، تبدیلی و انقلاب کی آوازیں اٹھیں۔ کسی نے کہا آئی جی کو بدل دو، کسی نے رائے دی سی سی پی او کو چلتا کرو۔ کوئی کہنے لگا ’’چہرے نہیں ، نظام بدلو۔‘‘ کسی نے کہا پولیس کو سیاسی مداخلت سے ’’پاک‘‘ کر دو۔ پھر کیا ہوا ، آئین و قانون پررونا، دھونا جاری تھا ، پولیس افسروں کو کوسا جا رہا تھا ، اداروں پر ’’سنگ باری‘‘ جاری تھی۔ پولیس بھی ’’روایتی مزاج‘‘ اور ’’فطرت‘‘ کے مطابق سارے معاملے کو دیکھ اور سن رہی تھی۔ ملزم پکڑ لئے گئے تو قدرے اطمینان ہوا۔ اب پولیس میں سیاسی مداخلت کا شور بھی مدھم پڑ گیا ہے کیونکہ پولیس سمیت کسی بھی محکمے میں ’’اندرونی‘‘ ’’بیرونی‘‘ یا ’’سیاسی‘‘ ’’سماجی‘‘ کسی بھی قسم کی مداخلت ختم کرنے کا محض دعویٰ ہی کیا جا سکتا ہے ، عملی طور پر ممکن ہی نہیں۔ نظام بدلنے کی ہم صرف خالی ، خولی بڑھکیں ہی مار سکتے ہیں ورنہ آج تک ہم مجموعہ ضابطہ فوجداری اور مجموعہ تعزیرات پاکستان (جو دراصل مجموعہ تعزیرات ہند ہے) کونہیں بدل سکے۔ رہا پولیس میں سیاسی مداخلت کا تاثر، تو یہ بھی فریقین کی ’’مشاورت‘‘ اور ’’مرضی‘‘ پر ہی منحصر ہے۔ عوام کا فائدہ ہو نہ ہو۔ تاہم پولیس اور’’سیاست‘‘ دونوں کا اسی ’’مداخلت‘‘ میں ہی بھلا ہے اور دونوں ہی ’’نظریہ ضرورت‘‘ اور ’’نظریہ مجبوری‘‘ کے تحت اس کو ’’پسند‘‘ اور ’’برداشت‘‘ کرتے ہیں۔ کیونکہ پولیس افسر چھوٹا ہو یا بڑا۔ اسکی مرضی کیخلاف چڑیا پر نہیں مارتی۔ ’’سیاسی مداخلت‘‘ بھی پولیس کو اس وقت تک ہی ’’وارہ کھاتی‘‘ اور ’’بھلی‘‘ لگتی ہے جب تک پولیس کی اپنی مرضی اور اپنا مفاد ہو۔ ورنہ محرر (منشی) کی میز پر پڑی کتابوںمجموعہ ضابطہ فوجداری اور مجموعہ تعزیرات پاکستان کی بھی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمیشہ گردوغبار سے اٹی رہتی ہیں۔ ایس ایچ او یا اوپر کے افسروں کی میز پر تو اس کی ’’عزت‘‘ اور بھی زیادہ ہوتی ہے کہ ان ہر دو کتابوں کو ایک ساتھ یا اوپر نیچے رکھ کر پولیس افسر کی چھڑی انکے اوپر ہوتی ہے جو یہ تاثر دیتی ہے کہ قانون کتابوں کا نہیں چلتا۔ پولیس افسر کی چھڑی کا چلتا ہے‘ بالادستی قانون کی نہیں، اختیارات اور طاقت و قوت کی ہوتی ہے۔ بات بھی سچ ہے،’’ اگرچہ رسوائی ہی کی ہے‘‘۔ کہ پولیس اتنی منہ زور ہو چکی ہے کہ وہ کسی ’’سیاسی مداخلت‘‘ کو خاطر میں ہی نہیں لاتی۔ اب تو ایس ایچ او کو ’’پسند‘‘ کے تھانے میں تعیناتی کیلئے کسی ایم پی اے، ایم این اے کا سہارا نہیں ڈھونڈنا پڑتا بلکہ براہ راست ڈی پی او، آر پی او تک اس کی رسائی ہوتی ہے۔ تھانے بھی ’’آمدن‘‘ کو مدنظر رکھ کر ’’کماؤ پتروں‘‘ کو دیئے جاتے ہیں اسی لیے تو ایف آئی آر کے اندراج سے لیکر تمام تفتیشی مراحل طے کرنے تک پولیس اپنی من مانی کرتی ہے اور امن و امان میںکسی اتھارٹی کے اھحکامات کی پروا نہیں کرتی۔ سیاسی اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار بھی پولیس میں اپنی حد تک عزت اور پذیرائی کے عوض عوام سے کالانعام (چوپایوں، جانوروں) جیسا سلوک روا رکھنے میں نظام کی بہتری اور عافیت سمجھتے ہیں۔
گلشن گلشن محفل محفل ایک ہی قصہ ایک ہی بات
ظالم دنیا، جابر دنیا، جانے کب یہ بدلے گی