وصیت کی اہمیت
آئر لینڈ متعدد بارآنا ہوا لیکن اس بار یہاں آئے تو تین ایسے واقعات سنے کہ جن کو سن کر دکھ ہوا‘دل سے دعا بھی نکلی اور افسوس بھی ہوا۔جن تین واقعات کا سن کر دکھ ہوا وہ یہ ہیں۔پہلا یہ کہ لندن میں ایک مرحوم کواس کی انگریز بیوی کی مرضی سے دفنانے کی بجائے جلایاگیا کیونکہ مرنے والے نے کوئی وصیت نہیں چھوڑی تھی اس لیئے اسٹیٹ نے انگریز(عیسائی) بیوی کی خواہش پر عمل کیا۔دوسرا ایسا ہی ایک واقعہ یہاں ڈبلن میں بھی ہوا کہ وصیت نہ ہونے کی وجہ سے مرحوم کو عیسائی بیوی کے کہنے پر جلایا گیا۔اس کے دوستوںیا پڑوسی مسلمانوں کی نہیں سنی گئی کیونکہ قانون یہ ہی ہے۔تیسرا واقعہ ان دو واقعات سے کہیں زیادہ عبرت ناک ہے کہ جس میںدونوں والدین کی موت پر اسٹیٹ کے قانون کے تحت کسی وصیت کی غیر موجودگی میںاسٹیٹ نے تمام جائیداد بحق سرکار ضبط ہی نہیں کی بلکہ چاروں بچوں کو بھی تحویل میں لے لیا جنہیں اب اپنے قانون کے تحت پرورش کے لیئے کسی بھی مناسب جوڑے کو دے دیا جائیگا۔اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے یہ جوڑا مسلم بھی ہو سکتا ہے اور غیر مسلم بھی۔یہاں کے قانون کے مطابق یہ جوڑا دومردوں پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے یا دو خواتین پر بھی،کیونکہ یہاں کے قانون کے مطابق یہ غیر قانونی نہیں۔مذکورہ بچوں میں سب سے بڑا ۲۱ سالہ ہے۔ کچھ لوگوں نے انہیں
لینے کی کوشش کی لیکن انہیں آئرش قانون کے تحت ہی کسی کو دیا جا سکے گا۔کیونکہ والدین نے کوئی وصیت نہیں چھوڑی تھی جس کا خمیازہ بچوں کو بھگتنا ہوگا اب وہ الگ الگ پلیں گے۔اگر وصیت ہوتی تو اس پر عمل ہوتا۔دکھ تو ان واقعات پر ہوا لیکن دعا آئر لینڈ کی ایک ایسوسی ایشن ’’ّآئرش پاکستانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن‘‘ (IPPA) کے لیئے نکلی جس نے آئرلینڈ میں وصیت کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیئے ایک سیمینار منعقد کیا تھا جس میں شرکت کا موقع ملا ۔مقررین میں دو آئرش وکیل مسٹر روڈی ٹائریل اور مسٹر جیری مکمن بھی تھے جنہوں نے وصیت کے حوالے سے آئرش قانون کی تفصیل سے وضاحت کی جبکہ جناب احمد حباش اور مفتی ذکریا صاحب نے اسلام میں وصیت کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی جس سے ہم خود اب تک بے بہرہ تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ وصیت صرف امر ا اور صاحب جائیداد کے چونچلے ہیں۔اسلام میں صرف جائیدادکی تقسیم ہی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ دوسرے دینی اور دنیاوی معاملات کے حل میں بھی مدد دیتی ہے اس کی اہمیت ان تین واقعات نے پوری طرح واضح کردی۔وصیت ہونے کی وجہ سے تدفین وغیرہ میں آسانی ہو جاتی ہے۔قائد اعظم کی نماز جنازہ اورتدفین وصیت کے مطابق ہوئی اور کوئی بد مزگی نہیں ہوئی تھی جبکہ محترمہ فاطمہ جناح کی وصیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی تدفین پربدمزگی پیدا ہوگئی تھی۔ہمارے پڑوس میںایک قادیانی خاندان تھا جب اس کے سربراہ کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت سامنے آئی جو انہوں نے اپنے ایک جج دوست کے پاس رکھوائی تھی جس کے مطابق وہ مسلمان تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی تدفین اسلامی طریقے سے ہو۔وصیت کی وجہ سے ا نکی فیملی نے کوئی رخنہ نہیں ڈالا بلکہ کچھ عرصے بعد پوری فیملی مسلمان ہو گئی ہم نے شروع میں لکھا تھا کہ ہمیں صدمہ بھی ہوا تھا دعا بھی نکلی تھی اور افسوس بھی ہوا تو عرض ہے کہ صدمہ تو ان واقعات پر ہوا۔ دعا آئرلینڈ کی آئرش پاکستانی پروفیشنلز ایسوسی ایشن ’’IPPA‘‘ کے لیئے تھی جس نے غیر مسلم ملک میں رہتے ہوئے اسلام میں وصیت کی اہمیت کو اجاگر کیا لیکن افسوس کہ یہاں پر کچھ مسلمانوں نے اس پر کان نہیں دھرا، جس کا نتیجہ یہ تین واقعات ہیں (جو ہمارے علم میں ہیں)افسوس تو ہمیں پاکستان پر بھی ہے جہاں وصیت کی اہمیت کو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ہمارے علما، خطیب، واعظ اور پیش امام بھی ایسی اہم باتوں پر توجہ نہیں دیتے ۔وصیت میں بتایا جاسکتا ہے کہ تدفین کے لیے آنے والوں کے لیئے ولیمے کی طرز پر کھانے کا انتظام نہ کیا جاے۔ہم نے خود دیکھا ہے کہ مرحوم کے گھر والے پکڑ پکڑ کر لوگوں کو دسترخوان پر بٹھا رہے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہیئے کہ لواحقین کو سب مل کرکھانا کھلائیںجو نہ جانے کتنی دیر سے بھوکے پیاسے ہوں(یہ ہی اسلامی طریقہ ہے)وصیت میں بتایا جائے کہ کسی کے مقروض تو نہیں۔ کسی سے کچھ لینا تو نہیں۔شرعی تقسیم کے علاوہ کسی کی مدد کرنا تو نہیں چاہتے۔اکثر لوگ بہنوں سے انکا حصہ معاف کروالیتے ہیں۔وصیت میں واضح کر نا چاہیئے کہ ایسا نہ کریں کہ پکڑ مرحوم کی ہو گی اگر بہنوں کی حق تلفی کی گئی لیکن افسوس ہمارے یہاں اس موضوع پر بات نہیں ہوتی۔۔ نہ جانے کیوں؟؟؟