ان خان کا ایک سو گیارہ ارب کا پیکیج
پاکستان کا سب سے اہم شہر ملک کا پہلا دارالخلافہ کراچی، ون یونٹ کے بعد سندھ کا صوبائی دارالخلافہ بننے کے بعد پاکستان کے قیام سے ابتک تجربات اور لسانی سیاست کا محور رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جس شہر کو اہمیت دی۔ اس شہر کو حکمرانوں نے مردم شماری میں کم گن کر تو کبھی کوٹہ سسٹم کی زنجیر میں باندھ کر استحصال کی نذر کردیا۔ جسکا نتیجہ فرسٹریشن کی صورت میں نکلا۔ یہ شہر منی پاکستان تو بنا لیکن یہاں مہاجر، پختون، پنجابی، سندھی ، بلوچی، سرائیکی اور دیگر لسانی اکائیوں کی تقسیم نے کراچی کو عصبیت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیل دیا۔ کراچی کو دارالخلافہ ختم کرکے صدر ایوب نے لسانیت اور عصبیت کا بیج بویا۔ زوالفقار علی بھٹو نے کوٹہ سسٹم نافذ کرکے لسانیت کی ہر حدود کو عبور کیا۔ مردم شماری میں کراچی کے افراد کو کم لکھوا کر محمد خان جونیجو کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو نے نفرت کی انتہا کو جنم دیا۔ صدر ضیاء الحق نے بی ڈی سسٹم نافذ کیا اور گراس روٹ لیول پر کراچی میں کام شروع کیا۔ کراچی کی بربادی کے ذمہ دار تو سارے حکمراں ہیں لیکن صدر جنرل پرویز مشرف نے 121ارب کا پیکیج دیکر کراچی کی قسمت بھی بدلی اور ملک کو لوکل گورنمنٹ کا ایک ایسا نظام دیا جس سے ملک دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہونے لگا۔ سٹی ناظم مرحوم نعمت اللہ خان نے کراچی کے دورے میں پرویز مشرف کوایک گھنٹے کے سفر میں قائل کیا۔ جسکے بعد اربوں روپے کے منصوبے کراچی کے لئے آئے۔ مصظفی کمال نے سٹی ناظم بننے کے بعد جدت پسندی سے کراچی کو بہترین شہر بنایا۔سندھ کے ایک اور شہر ٹنڈوالہ یار میں بھی ناظمہ راحیلہ گل مگسی نے بھی شہر اور گائوں کی حالت زار بدل دی۔ سکھر میں ناصر حسین شاہ عرف پپو نے شہر کی قسمت بدلی۔ اس نظام سے ملک بھر میں شہروں کا اسٹینڈرڈ بڑھا اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ قائم ہوئیں ۔ ملک بھر میں ترقی کا پہیہ چلا۔ آئین کی شق 140-Aپر عمل درآمد نظر آیا لیکن بدمعاشی اور کمشنری نظام کے ذریعے عوام کو بنیادی حقوق سے محروم رکھنے والی جمہوری حکومتیں‘ آمر کا نظام کہہ کر سٹی گورنمنٹ کے نظام پر شب خون مار گئیں۔ 2010سے 2016تک سرکاری افسران راج اور کمشنری نظام کی بحالی کے بعد کراچی بالخصوص اور سندھ کے دیگر شہروں کے ساتھ بالعموم تباہی کا آغاز ہوگیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی الیکشن ہوئے ۔ 5دسمبر 2015کو الیکشن ہوئے لیکن 30اگست 2016کو جاکر سسٹم مکمل ہوا۔ بلدیاتی قیادت آخری وقت تک اختیارات نہ ہونے کا واویلا کرتی رہی۔ سپریم کورٹ سے بھی اختیارات کی پیٹیشن سماعت پر نہیں گئی لیکن جیسے ہی بلدیاتی ٹرن اوور ختم ہوا کراچی پر سب مہربان ہوگئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے 162ارب کے پیکیج کا اعلان کیا لیکن بلدیاتی قیادت اور سندھ حکومت کی حسرت ہی رہی کہ یہ رقم ملے گی۔ اب کراچی کے ڈوبنے اور مکمل تباہ کرنے کے بعد وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی کراچی کے لئے محبت جاگ گئی۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے گیارہ سو ارب کے پیکیج کا اعلان کردیا۔ جو بہت خوش آئند ہے۔کراچی کے معاملے پر آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے بھی دلچسپی لیکر کراچی ہائٹس کے حوصلے بڑھا دیئے۔ این ڈی ایم اے نے کام شروع کردیا ہے ۔ ایف ڈبلیو او کی کراچی میں ورکنگ پائیدار سڑکیں بننے کا آغاز ہوگی لیکن سندھ حکومت اور وفاق میں رقوم کے تناسب پر بلاجواز بحث انکی غلط سوچ کی عکاسی کر رہی ہے۔ وزیر اسد عمر نے بڑی اچھی بات کی کہ سندھ حکومت کے آٹھ سو ارب مان لئے کام شروع کرو۔ کراچی میں نالوں پر تجاوزات کا خاتمہ ہونے والا ہے کے ایم سی، کے ڈی اے اور دیگر ادارے نالوں کی اوریجنل پوزیشن کی مارکنگ کر رہے ہیں۔ تاکہ این ڈی ایم اے کام شروع کرسکے۔ کے ایم سی میں ڈپٹی میئر کے دفتر میں ایک بریگیڈئیر اور چار کرنلز آچکے ہیں جو ترقیاتی کاموں کے لئے اور نالوں سے تجاوزات کے خاتمے کے لئے کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اداروں سے کام لیں گے۔ فوج اور رینجرز نے کراچی میں امن قائم کیا اور اب اسکی ترقی بھی اسی کی مرہون منت ہوگی۔ عوام میں اس پر خوشی پائی جاتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو اپنے اعلان کے مطابق اس پر فوری عمل کرانا چاہیئے۔ پی پی پی اس پر سیاست نہ کرے بلکہ ساتھ دے۔ کراچی پورے ملک کا معاشی حب ہے جو وفاق کو 70اور صوبہ کو90فیصد ریونیو دیتا ہے۔ کراچی چلتا ہے تو ملک کا پہیہ چلتا ہے۔ اس کی دی ہوئی رقم ہی میں سے کراچی پر کچھ لگانا کوئی احسان نہیں ۔ ملک کی ترقی کے لئے گیارہ سو ارب لگنے ضروری ہیں ۔ کراچی کی ترقی کے لئے کراچی کی میٹروپولیٹن کارپوریشن کا کردار اہم ہے جو اسوقت ٹربل میں ہے، جہاں گروپنگ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی پالیٹکس عروج پر ہے۔ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے افتخار شلوانی کی تعیناتی ہوئی ہے جو اچھے افسر ہیں ۔ انہیں لسانی بنیادوں پر ہدف بنانے کی کوشش ہو رہی ہے جو درست نہیں ۔ وہ اچھے جذبے کے ساتھ آئے ہیں ۔ انکے ساتھ دیانتدار اور محنتی میٹروپولیٹن کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمان ہیں جو کے ایم سی کو اسکے پائوں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ دونوں ملکر شہر کی قسمت بدل سکتے ہیں ۔ کے ایم سی کے شفاف آکشن اسکی ریکوریز بڑھائیںگے۔ جو یہ دونوں ملکر شہر میں کام کی رفاتر حاصل اختیارات میں کرسکتے ہیں ۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں واٹر بورڈ، بلڈنگ کنٹرول ، کے ڈی اے، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ، کنٹومنٹ اور دیگر اداروں کا کنٹرول بھی کسی نہ کسی شکل میں دیا جائے۔ ڈاکٹر سیف الرحمان باصلاحیت اور افتخار شلوانی بہترین افسر ہیں جو اپنی بہترین گڈ گورننس سے نتیجہ دے سکتے ہیں کراچی کے عوام کی ان سے بڑی توقعات ہیں۔ لیکن انہیں کالی بھیڑوں اور مفاد پرست افسران جو ہر دور میں قریب ہوتے ہیں ان سے جان چھڑانی ہوگی۔ تاکہ شفاف اور اعلی افسران کراچی کی ترقی اور کے ایم سی کا امیج بہتر کرسکیں ۔