ہر روز صبح نوائے وقت کا مطالعہ کرتا ہوں تو امام صحافت جناب مجید نظامی مرحوم یاد آتے ہیں۔ اس کی وجہ نوائے وقت کے صفحہ اول پر روزانہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے شائع ہونے والا اشتہار ہے۔ مجید نظامی ایسے کاموں میں ہمیشہ سب سے آگے رہتے تھے۔ ملک و قوم پر کوئی مشکل وقت آتا تو نوائے وقت فلاحی کاموں اور حکمرانوں کو جگانے اور درست سمت بتانے میں نمایاں نمایاں نظر آتا تھا۔ صفحہ اول پر شائع ہونے والا اشتہار مرحوم مجید نظامی کی یاد دلاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے ایک اشتہار محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کے لیے بھی شائع ہوتا رہا ہے۔ کشمیریوں کی مدد اور مسئلہ کشمیر کے لیے جناب مجید نظامی کا نام سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ وہ ہر دور میں کشمیریوں کے لیے مضبوط اور توانا آواز کے طور پر جانے جاتے رہے۔ اس مسئلے پر انہوں نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے رکھنے کے لیے انہوں نے ہر فورم پر آواز بلند کی۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں کشمیر آورمیں کشمیریوں کے لیے تقریر کر کے اپنے دفتر تشریف لاتے اور پھر نوائے وقت اور دی نیشن کے ذریعے کشمیریوں کی آواز دنیا میں پہنچاتے۔ ہمیں ایسے ہی محب وطن، مقصد سے جڑے رہنے والے اور ملک و قوم کی خدمت کرنے والے افراد کی ضرورت ہے۔ آج کشمیریوں پر کڑا وقت ہے تو ہر پاکستانی کو مجید نظامی بن کر ان کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے، آج ہر پاکستانی کومجید نظامی بن کر سوچنا اور کام کرنا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر پر مجید نظامی مرحوم ایک سوچ، فکر اور فلسفے کا نام ہے۔ ہمیں اس فلسفے کو اس سوچ اور فکر کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمارے ذہن میں اپنے دشمنوں کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ بھارت ہمارا دشمن تھا ہے اور رہے گا۔ وہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اس نے ہمسایہ ہونے کے باوجود ہمیشہ ازلی دشمن کا کردار ادا کیا ہے۔ اللہ ہمیں کشمیر اور کشمیریوں کی مدد کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
آج نوائے وقت کا صفحہ اول بتا رہا ہو گا کہ کشمیر لاک ڈاؤن کو تینتالیس روز ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں مالی نقصان اپنی جگہ ہے اس نقصان کا ازالہ تو ممکن ہے لیکن جو نقصان انسانی جانوں کی صورت میں ہو گا اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ جس کی ٹانگ کاٹ دی گئی ہے وہ کبھی واپس نہیں آئے گی، جس کا بازو الگ کر دیا گیا ہے وہ کبھی واپس نہیں مل سکتا، جس کی بینائی چھین لی گئی ہے وہ لوٹائی نہیں جا سکتی، جس کی زبان کاٹ دی گئی ہے وہ کبھی بول نہیں سکے گا، جس بچے کے ذہن میں یہ خوف اور دہشت بیٹھ گئی ممکن ہے وہ کبھی اس خوف سے نہ نکل سکے، جس کی عصمت دری کی گئی وہ عزت کبھی واپس نہیں مل سکتی۔ ان تلخ حقیقتوں کو سامنے رکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کشمیری کس اذیت میں ہیں۔ ہم لکھتے لکھتے بولتے بولتے تکلیف محسوس کرتے
ہیں، آبدیدہ ہو جاتے ہیں جو یہ تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں ان کا عالم کیا ہو گا۔ دہائیں گزر گئی ہیں یہ تکالیف برداشت کرتے کرتے لیکن سہولت کا کوئی سامان نہیں ہوا، کوئی راحت نہیں ملی، آزادی نہیں ملی اب ایک ہلکی سی امید ہے کہ اس مرتبہ کرفیو کے بعد حقیقی آزادی مل جائے، ظلم و ستم کا سلسلہ ختم ہو اور آزاد فضاؤں میں سانس لینے کا موقع ملے۔ حکومت پاکستان اپنی سطح پر اپنا کردار ادا کر رہی ہے تو عوام بھی کشمیریوں کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ کشمیریوں کے حقوق کے لیے آوازیں اب دنیا بھر سے بھی بلند ہو رہی ہیں۔ آواز بلند ہونا خوش آئند تو ہے لیکن وقت عملی اقدامات کا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندو بنیا کبھی مذمت کو نہیں سمجھتا وہ جب سمجھے گا مرمت کی زبان سمجھے گا۔ اگر وہ گفتگو سے قائل ہونے کی خاصیت رکھتے تو اپنے ہی من پسند سیاست دانوں کو تو گرفتار نہ کرتے وہ تمام زبانیں بند کر رہے ہیں جن سے آزادی کا لفظ ادا ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک زبان بہادر حریت رہنما یاسین ملک کی بھی ہے۔ ان کی اہلیہ مشعال ملک بھی بہادر اور نڈر خاتون ہیں۔ ہر محاذ پر بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے بڑے مضبوط انداز میں پیش کرتی ہیں وہ یاسین ملک کی صحت کے حوالے سے خاصی فکر مند ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ چھ ماہ ہو چکے ہیں یاسین ملک سے بات نہیں ہو سکی۔ انہیں ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے اور ان کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ مشعال کہتی ہیں کہ بھارت کشمیریوں پر بہت ظلم کر رہا ہے ہزاروں کشمیریوں کو
غائب کیا گیا ہے۔ بڑی طاقتیں صرف اس وجہ سے خاموشی اختیار کرتی ہیں کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے لیکن میں اس سے اختلاف کرتی ہوں کیونکہ ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا۔ اقوام متحدہ کا اجلاس بڑی پیشرفت ہے۔ پاکستانی بھی کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کریں۔ دوسری طرف جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں بھی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور کرفیو لگانے کے خلاف مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اس مظاہرے کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے عہدے داروں نے مل کر کشمیریوں کے حقوق کے لیے مظاہرہ کیا۔ مسئلہ کشمیر پر ہمیں ایسے ہی اتحاد کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں ایس اتحاد نظر نہیں آتا۔ مظاہرین نے کرفیو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کشمیریوں کے لیے بیرونی دنیا میں آواز بلند ہو رہی ہے تو بھارت کے اندر سے بھی نریندرا مودی کے اس ظالمانہ اقدام پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کے نمایاں سیاستدان ، انڈین کرکٹ بورڈ اور آئی سی سی کے صدر اور ریاست ممبئی کے وزیر اعلیٰ شرد پوار بھی نریندرا مودی کی حکومت کے اس فیصلے سے ناخوش نظر آتے ہیں انہوں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے پر بی جے پی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ شرد پورا بھارت کے مرکزی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت کی ایک خاص پارٹی کا پاکستان اور مسلمان مخالف بیانیہ سیاسی فائدے کے لیے تھا۔ انہوں نے پاکستانیوں کی مہمان نوازی کی بھی تعریف کی ہے شرد پوار کہتے ہیں کہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے پاکستان کا دورہ کیا تھا انکی مہمان نوازی کا گواہ ہوں۔
امریکی سینیٹر باب کیسی کو کشمیر کے حوالے سے بھارتی اقدامات پر تشویش ہے۔ وہ کرفیو ، لاک ڈاؤن اور رابطے کے ذرائع منقطع ہونے پر پریشان ہیں۔ باب کیسی کہتے ہیں کہ بھارت کے اقدامات نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھا دی ہے۔بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ جموں کشمیر کی عوام کے حق خود ارادیت اور انسانی حقوق کے لیے پرعزم ہوں۔ کشمیریوں کے لیے آوازوں کا بلند ہونا خوش آئند ہے حکومت پاکستان کو سفارتی اور غیر روایتی سفارتی طریقوں میں تیزی لانی چاہیے۔
ایک طرف دنیا مسئلہ کشمیر پر بھارت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری کشمیر کمیٹی کی سربراہی کرنے والے مولانا فضل الرحمان اس اہم ترین وقت میں کشمیر کو بھول کر پاکستان کو ہی کشمیر بنانے کے مشن پر چل نکلے ہیں وہ شہباز شریف سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ایسا طرز عمل کسی تجربہ کار سیاستدان کا ہو سکتا ہے؟؟؟؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024