پیر ‘ 16 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 16ستمبر 2019 ء
فلپائنی صدر کا عوام کو کرپٹ
سرکاری ملازمین کو گولی مارنے کا حکم
فلپائن کے صدر کا یہ حکم تو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ جب برائی حد سے تجاوز کر جائے بااثر لوگ قانون اور انصاف کی دھجیاں بکھیرنے لگیں، کرپشن کو حق سمجھا جائے تو پھر ا یسے افراد کی اصلاح وعظ سے نہیں ہوتی اس کام کے لیے عصائے موسوی کی ضرورت پڑتی ہے۔ فلپائن میں بھی ہماری طرح رشوت کا دور دورہ ہے۔ ہر طرف کرپشن کی بہار چھائی ہوئی ہے۔ قانون انصاف اور ایمانداری کسی کونے میں منہ چھپائے رو رہے ہیں۔ عوام زندہ درگور ہیں تو ایسے میں فلپائن کے صدر سے جب عوام کا دکھ برداشت نہیں ہوا تو انہوں نے عوام کو اس مرض سے شفا پانے کا آسان نسخہ بتا دیا جو اس مرض کا سو فیصد درست علاج ہے۔ کاش یہ علاج حکمران خود کرتے اور کرپٹ عناصر کو پھانسی پر لٹکا دیتے تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا کہ حکمران خود عوام کو سزا کا اختیار دے رہے ہیں۔ بس رعایت صرف اتنی دی ہے کہ کسی کو جان سے نہ مارا جائے صرف زخمی کرنے کے لیے گولی ماری جائے۔ کیا ہمارے ملک میں بھی یہی حالت نہیں جو فلپائن میں ہے۔ برتھ سرٹیفکیٹ سے لے کر ڈیتھ سرٹیفکیٹ تک میں رشوت لی جاتی ہے۔ کوئی جائز کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ حالات یہاں کے بھی ناقابل اصلاح ہو چکے ہیں تو کیا یہی فارمولا یہاں بھی جاری نہیں ہو سکتا۔ گولی نہ سہی رشوت مانگنے والے کے سر پھاڑنے کی اجازت تو دی جا سکتی ہے کہ غریب آدمی کا غصہ بھی نکل جائے گا اور سب کو پتہ چل جائے گا کہ زخمی ہونے والا رشوت مانگ رہا تھا۔ اگر کوئی دفتری اپنے ساتھ رشوت خور کو بچانے کے لیے آمادہ جنگ ہو تو اس کی گوشمالی بھی ضروری ہے تاکہ سب کو پتہ چلے کہ یہ بھی رشوت خور کا ساتھی ہے…
٭٭٭٭٭٭
پاکستانی بسوں میں بھارتی فلموں پر پابندی
دیر آید درست آید یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ کئی بار مشاہدے میں آیا ہے کہ بھارتی لچر فلموں کی وجہ سے بس میں مسافروں کے درمیاں توتکار بھی ہوتی ہے مگر بے شرم ڈرائیور باز نہیں آتے اور چند سواریوں کی خاطر خواتین سمیت اکثر مسافروں کا احتجاج نظر انداز کر دیتے ہیں۔ فیملی والے حضرات تو خاص طور پر ڈرائیوروں کو کوستے رہیں۔ اب اگر اس پابندی پر سختی سے عمل ہو جائے تو مسافروں کی بڑی تعداد اطمینان محسوس کرے گی۔ اس کے ساتھ یہ خبر ہی آئی ہے کہ بھارت نے پاکستان دشمنی کی وجہ سے پاکستان سے پیاز خریدنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پاکستانیوں اور پاکستانی اشیا سے کتنی نفرت کرتے ہیں اور ہم ہیں کہ بھارتی ثقافت سے لے کر خوراک اور لباس تک پر مرے جاتے ہیں۔ اب حکومت ہر شہر میں قائم بھارتی پان منڈیوں اور بھارتی سامان فروخت کرنے والوں کے خلاف بھی ایکشن لے۔ ان چور بازاروں میں اربوں روپے کا بھارتی سمگل شدہ پان ، چھالیہ ، ادویات ، کپڑا، جیولری ، کاسمیٹک کا سامان کھلم کھلا بک رہا ہے وہ ہمارے پیاز خریدنے سے انکاری ہیں ہم ان کے جوتے تک خریدتے ہیں۔ کیا ہم بھارتی اشیاء کا بائیکاٹ تک نہیں کر سکتے اگر ایسا ہے تو ہم 22 کروڑ پاکستانیوں کے لیے شرم کا باعث ہے۔ صرف خالی خولی نعرے لگانے سے اعلان کر نے سے حب الوطنی ظاہر نہیں ہوتی۔ حکومت بھارتی اشیاء کی خرید و فروخت پر بھی سختی سے پابندی عائد کرے۔ ہمارے تاجر بھی ذرا شرم کریں حیا کریں۔ کیا ان کا جذبہ حب الوطنی ختم ہو چکا ہے یا وہ اتنے بے ضمیر ہو چکے ہیں کہ سمگل شدہ بھارتی سامان فروخت کرتے ہوئے بھی انہیں شرم نہیں آتی ۔
کراچی کو دوبارہ ملک کا دارالحکومت
ہونا چاہئے۔ آغا سراج درانی
بات تو درست کی ہے آغا جی نے۔ مگر پیپلز پارٹی اپنے صوبائی دارالحکومت کو کیوں سدھار نہ سکی تو اگر کراچی ہی دارالحکومت ہوتا تو اس کا کیا حال ہوتا۔ وفاقی بیورو کریسی۔ وزرا اور حکمرانوں کے بگڑے معاملات سیدھے کرنے کیلئے ۔ دنیا بھر کے دارالحکومت بڑے بڑے شہروں میں ہی ہیں۔ دہلی، واشنگٹن، ماسکو، لندن ، پیرس ، برلن جہاں دیکھیں بڑے بڑے شہر دارالحکومت ہیں تاکہ حکمرانوں پر عوام کی نظر رہے۔ ہمار آمرانہ مزاج والے وی آئی پی قسم کے حکمرانوں میں البتہ یہ خوف کچھ زیادہ ہی سرایت کر چکا تھا کہ ا گر وہ کراچی میں رہے تو عوامی ردعمل بھی فوری دیکھنے میں ملے گا۔ عوام انہیں زیادہ غلط کام کرنے نہیں دیں گے۔ ان کی نیندیں حرام کر دینگے۔ سو اسی باز پرس سے بچنے کیلئے جنرل ایوب خان نے اسلام آباد جیسے محفوظ مقام کو دارالحکومت بنانے کیلئے چنا جہاں عوام کا داخلہ ہی ناممکن تھا۔ پھر کیا ہوا سب کو معلوم ہے اب حکمران چین سے سوتے ہیں آرام سے رہتے ہیں۔ حکمران جو مرضی کریں عوام کا اسلام آباد تک پہنچنا ان کے لیے ناممکن ہی رہا ہے۔ دنیا بھر میں دیکھ لیں حکمرانوں کی ذرا سی بدمستی پر لاکھوں لوگ اپنے حکمرانوں کیخلاف ان کی پالیسیوں کیخلاف دارالحکومتوں میں جب نکلتے ہیں تو حکمرانوں کی کرسی کانپنے لگتی ہے۔ کراچی ویسے ہی جمہوریت پسندوں کا شہر تھا اس لیے ا س سے اس کا امتیاز چھین کر اسے ایسی پستی میں دھکیلا گیا کہ آج ہمارا پہلا دارالحکومت کچرا کنڈی بنا ہوا ہے وہ ایک انٹرنیشنل شہر تھا۔ اسے اگر دوبارہ دارالحکومت بنا دیا جائے جو ممکن نہیں رہا تو حکمرانوں کے مسائل بڑھ جائینگے مگر عوام کے مسائل میں کمی ضرور آئے گی اور کراچی بھی صاف ستھرا شہر بن جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭
چرچل کی جائے پیدائش سے سونے کا بنا کموڈ چوری ہو گیا
یہ کموڈ چرچل جیسے مشہور سیاستدان اور حکمران کے زیر استعمال تھا ہی نہیں۔ ایک کمپنی نے یہ صرف ان کی جائے پیدائش پر نمائش کے لئے رکھا تھا۔ 50 لاکھ ڈالر کی مالیت کا سونے کا بنا یہ کموڈ چرچل کی رہائشگاہ پر نمائش کے لیے کیوں رکھا گیا اب اس سوال کا جواب تو نمائش کے منتظمین کو ہی دینا ہو گا۔ چرچل جیسا زیرک اور حاضر جواب سیاستدان اگر زندہ ہوتا تو شاید وہ بھی اس چوری پر
دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں
جانے والی چیز کی غم کیا کریں
کہتے یا پھر کہتے ’’چھوڑو مٹی پائو‘‘ یورپی سیاستدان یا حکمران اتنی فضول خرچی سے آشنا نہیں ہیں کہ وہ ہمارے مسلم حکمرانوں کی طرح غسل خانے کے سامان سے لے کر کھانے کے برتن تک سونے کے استعمال کرتے ہیں۔ خیر سے ان کے پلنگ اور کرسیاں تک سونے کے ہوتے ہیں۔ اتنا اسراف اور فضول خرچی کا چرچل تو کیا آج تک کی ملکہ برطانیہ نے بھی کبھی سوچا تک نہ ہو گا۔ وہ بے چاری بھی حکومت کی منظور شدہ رقم میں گزر بسر کرتی ہیں۔ انہیں تو عام اخراجات تک کا حساب کتاب دینا ہوتا ہے۔ اب برطانیہ کی ماہر پولیس اس چوری کا سراغ لگانے میں مصروف ہے کہ یہ کارستانی کس استاد کی ہے۔ جلد یا بدیر اس کا سراغ مل جائے گا۔ مگر داد دینی پڑتی ہے اس چور کی جس نے یہ ناممکن کارنامہ انجام دے کر برطانیہ کی پولیس کو بھی چکرا کر رکھ دیا۔ ایک شخص پولیس کے قابو آ چکا ہے مگر بے سود کیونکہ پولیس کو چور سے زیادہ اس قیمتی سونے کے کموڈ میں دلچسپی ہے جو ابھی تک برآمد نہیں ہو سکا۔
٭٭٭٭٭٭