طاقت کی زبان سمجھنے کی بھارتی روش ۔۔!
17 ستمبر 1950 کو ایک صاحب اس دنیا میں وارد ہوئے جن کا نام ان کے والدین نے ’’ نریندر بھائی مودی ‘‘ رکھا اور موصوف اب تلک 25 ہزار 199 دن اس کائناتِ حیات میں گزار چکے ہیں ۔ یہ شخصیت چھبیس مئی 2014 کو پہلی بار ہندوستان کے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئی اور 2019 میں دوبارہ واضح اکثریت سے جیتنے کے بعد مودی اپنے دوسرے عہد اقتدار کے پہلے 100 دن بھی گزار چکے ہیں۔ انھوں نے گویا ہمیشہ یہ تہیہ کئے رکھا کہ انھوں نے اپنے ہمسایوں کے علاوہ خود اپنے یہاں کی اقلیتوں کو چین سے نہیں رہنا دینا اور اس ضمن میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں ۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے بعض افراد اور گروہوں کی نفسیات ہی کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ وہ محض طاقت کی زبان سمجھتے ہیں اور دلیل اور منطق کو سامنے والی کی کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ویسے تو یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ زیادہ تر لوگ قوت کو ہی سب سے بڑی دلیل قرار دیتے ہیں مگر اس ضمن میں ہندوستان کی تاریخ پر ذرا سی بھی نگاہ ڈالیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ وہاں کے حکمران طبقات ہمیشہ ہی سے قوت کے پجاری رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے ہر وہ شے جو نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہے ، اس کی پوجا شروع کر دی جاتی ہے مثلا آگ ، سانپ اور مختلف درندے وغیرہ اور شاید اسی وجہ سے گذشتہ سینکڑوں برسوں میں بھارت دوسری قوموں کا غلام رہا ہے ۔
مگر اب جب کہ 72 برسوں سے اسے آزادی میسر آئی ہے تو وہ اپنے چھوٹے ہمسایوں کو ڈرا دھمکا کر ، مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کا بازار گرم کر کے اور پاکستان چین کیخلاف توسیع پسندانہ عزائم اختیار کر کے گویا اپنی صدیوں کی غلامانہ محرومیوں کی تسکین کا خواہش مند ہے ۔ مگر بھارت کے بالا دست طبقات اس تلخ حقیقت سے جانے کیوں صرف نظر کر رہے ہیں کہ اس روش کے نتائج کبھی بھی کسی کے حق میں اچھے نہیں ہوتے ۔ اس تناظر میں موثر عالمی قوتیں بھی ، اپنی سطحی اور وقتی مصلحتوں کی بنا پر بھارت کی مجرمانہ روش سے چشم پوشی کرتے ہوئے غالباً اجتماعی انسانی کوتاہیوں کی مرتکب ہو رہی ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد خود بھارت کے اندر بھی ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی بھارتی تعلقات کسی طور قابلِ رشک نہیں ۔
یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کوئی بھی حکومت اس ریاست کا حقیقی چہرہ ہوتی ہے ۔ ایسے میں مودی سرکار آئے روز اپنی مذہبی اقلیتوں کے خلاف جس طرح عدم برداشت کے ماحول کو جان بوجھ کر فروغ دے رہی ہے ، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ جیسی بھارت نواز شخصیات کو بھی احساس ہو رہا ہے کہ اس وقت دو قومی نظریہ کے ساتھ نہ چلنا کس قدر عاقبت نااندیش فیصلہ تھا۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جموں کشمیر کے حوالے سے دہلی سرکار اپنی پارلیمنٹ کی منظور کردہ ایک قرار داد کا ذکر تو بار بار کرتی ہے مگر شاید وہ یہ بھول چکی ہے کہ اس ضمن میں اقوام متحدہ نے بھی کتنی قرار دادیں منظور کر رکھی ہیں لہذا اگر واقعتا بھارت کے حکمرانوں کو امن عزیز ہے تو انھیں پاکستان اور کشمیریوں سے بات چیت کا راستہ اپنانا ہو گا وگرنہ قابض بھارتی فوج کیسے اور کب تلک مقبوضہ ریاست پر اپنا تسلط بر قرار رکھ پائے گی۔
یہ امر اور بھی قابل ذکر ہے ایک روز قبل نریندر مودی نے بھارتی ریاست جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں اپنی حکومت کے 100 دن پورے ہونے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گوہر افشانی کی کہ ’’ 100 دنوں میں تو ہم نے محض ٹریلر دکھایا ہے، پوری فلم ابھی باقی ہے۔ ابھی تو صرف 100 دن گزرے ہیں جبکہ ہماری حکومت کے پورے پانچ سال باقی ہیں۔ ہم نے وہ کیا ہے جو اس سے قبل کے بھارتی حکمرانوں اور دوسروں نے سوچا بھی نہیں ہو گا اور ہم آگے بھی ایسے سارے کام کریں گے‘‘۔
اس تمام صورتحال کے باوجود دہلی کے حکمران تو ہٹ دھرمی سے جمہوریت اور سیکولر ازم کے دعوے کرتے رہتے ہیں مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ چونکہ عالمی برادری کے ایک بڑا حلقے کے ہندوستان کی بڑی آبادی سے کافی مفادات وابستہ ہیں، اس لئے دنیا دہلی کے ان لغو دعووں پر یقین بھی کر لیتی ہے۔ اور عالمی برادری ان پر یقین بھی کرے تو اس بابت کچھ نہ کہنا ہی غالباً بہتر ہو گا۔