سیاسی انجینئرنگ
ملکی سیاست کا اجمالی جائزہ یہ ہے کہ اپوزیشن کا اکتوبر میں ملین مارچ اسلام آباد پہنچ سکے گا یا نہیں۔ بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ وہ مولانا کی اخلاقی حمایت کرتے ہیں لیکن ان کے دھرنے میں شریک نہیں ہوں گے جس طرح سیاسی جماعتیں پارہ پارہ ہیں اسی طرح دینی جماعتیں بھی ہیں۔ جماعت اسلامی کی فلائٹ بھی تحریک انصاف کی طرح سولو فلائٹ ہے۔ ادھر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس ہر حساس پاکستان کی ترجمانی ہے کہ احتساب پر سیاسی انجینئرنگ کا تاثر خطرناک ہے اسے ختم کرنا ہو گا۔ طرز حکمرانی میں سیاسی دائرہ سکڑنا ملک اور آئینی جمہوریت کیلئے بہتر نہیں، کرپشن قانون کی حکمرانی میں بڑی رکاوٹ ہے جس نے عدالتی نظام کو جکڑ رکھا ہے۔ کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بداعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ سندھ میں ارکان صوبائی اسمبلی ترقیاتی کام نہ ہونے کی شکایت کرنے لگے ۔ سندھ کے عوام صوبے میں سیاسی تبدیلی کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔ حکومت کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ کراچی بلکہ پورے سندھ میں جابجا گندگی اور کچرے کے ڈھیروں کے سامنے بے بس ہے۔ ایسی بے بسی باقی تین صوبوں میں بھی اظہر من الشمس ہے۔ تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی پنجاب حکومت ایک سال میں اپنی منزل کا تعین بھی نہ کر سکی۔ سرکاری محکموں کے سامنے کوئی اہداف نہیں بلکہ گومگو کا عالم ہے تعلیم پولیس اور صحت میں سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر نئے نئے تجربات کئے جا رہے ہیں۔ فارورڈ بلاک بنے بغیر سندھ میں حکومت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر سندھ کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کا امکان ہے۔ باغی یا ناراض سندھ عوامی پارٹی کے نام سے سامنے آ سکتا ہے۔ وفاق گورنر راج بھی نافذ کر سکتا ہے۔ پنجاب میں پولیس گردی حد سے بڑھ چکی ہے۔ پولیس کا عمومی رویہ فرعونیت پر مبنی ہے۔ پولیس کے نجی ٹارچر سیلوں کی خبریں نئی بات نہیں۔ بدعنوان عناصر پولیس کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ پختونخوا میں ناقص کارکردگی والے وزراء کو نوٹس د ینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ناقص کارکردگی کا مطلب نااہلی، عدم دلچسپی اور فرائض سے غفلت کا نام ہے۔ وزیر اعلیٰ محمود خان کے پاس 17 محکموں کے قلمدان ہیں ، ان کی کارکردگی کو کون پرکھے گا، اپنے محکموں کی ناقص کارکردگی کا الزام وہ کس کے سر پر تھوپیں گے ۔ کیا اپنے دستخطوں سے اپنے نام ہی نوٹس جاری کریں گے۔ پنجاب میں ہائر ایجوکیشن مذاق بن گئی ہے۔ سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کی کرسی کانٹوں کا بستر ہے۔ ماہانہ بنیاد پر سیکرٹری تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری کا تجربہ ہونے جا رہا ہے۔ 2010ء میں چار سالہ بی ایس آنرز پروگرام 26 کالجوں میں متعارف ہوا جو 10 سال ہونے کو ہیں کالجوں سے آگے نہ جا سکا۔ انٹر کے بعد ایسوسی ایٹ ڈگری کے داخلے کئے جا رہے ہیں مگر نہ سلیبس اس کے مطابق ہے نہ ہی کوئی واضح گائیڈ لائن ۔ سرکاری کالجوں میں ہر سال ناتجربہ کار ٹیچر سی ٹی آئی کے نام سے ٹھیکے پر 8 ماہ کیلئے بھرتی کئے جاتے ہیں، اساتذہ حیران ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے زمینی حقائق کے برعکس ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کیونکر متعارف کرا دیا؟
وزیر اعلیٰ سندھ کی گدی کوئی ’’شاہ‘‘ ہی سنبھالنے والا ہے۔
ہر حد سے تجاوز کرنے والے کو پلے گرائونڈ سے نکلنا پڑتا ہے۔ پنجاب میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سامنے آئی ہے کابینہ میں بھی رد و بدل کا فیصلہ ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے ترجمان شہباز گل اور مشیر عون چودھری کو فراغت میسر آئی ہے یوں تو ملک بھرکے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اتنا کچھ مواد سامنے لے آتا ہے کہ مشیروں کی ضرورت دکھائی نہیں دیتی۔ اخبارات کے اداریے کالم مضامین معلومات اور مشوروں سے لبالب ہوتے ہیں۔ عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ مشیر وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم کو ایسے کیا گرانقدر مشورے دیتے ہیں جنہیں دینے سے میڈیا قاصر ہے۔ پنجاب میں محکموں کی بھرمار ہے۔ کارپوریشن کمیٹیاں اتھارٹیاں کمیشن عوام کیلئے کس قدر نافع ہیں۔ امریکہ ، کینیڈا، چین ، جرمنی برطانیہ میں بھی صدیوں سے کامیاب نظام چل رہا ہے وہ کیا ہے کہ نہ گراں فروشی ہے نہ منافع خوری نہ ملاوٹ نہ کم تولنا نہ گندگی نہ کچرے کے ڈ ھیر نہ جگہ جگہ ٹریفک وارڈن اور چالان چھوٹے سے چھوٹے کام کیلئے رشوت دفتروں کے چکر فائلوں اور کلرکوں کے پیچھے دوڑنا منت سماجت، تبادلوں سے نظام کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔
آمرانہ ادوار ملائکہ کا دور تو نہیں تھا کسی نیب نے ان ادوار کا کچا چٹھا کھولنے کی زحمت کیوں نہیں گوارا کی۔ چیف جسٹس کو یہ کیوں کہنا پڑا کہ ملک میں جاری احتساب کا عمل سیاسی انجینئرنگ ہے جس کی ڈگری یو ای ٹی سے نہیں ملتی۔ سیاسی انجینئرنگ کی ڈگری گمنام یونیورسٹی سے جاری ہوتی ہے جس کا نہ کوئی کیمپس دکھائی دیتا ہے نہ کوئی وائس چانسلر ہے اور نہ جس کی ڈگری کے حصول کیلئے کوئی کانووکیشن منعقد ہوتا ہے۔ کل جو طالع آزما مشرف کیلئے جو ڈائیلاگ بولتے تھے آج وہی مکالمے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کیلئے ہیں۔ ایسے موقع پرست کسی ہانڈی کے ڈھکن نہیں ہوتے۔ بلاول بھٹو بھی اپنے پاپا زرداری کی طرح اینٹ سے اینٹ بجانے والے جذباتی ڈائیلاگ پر اتر آئے ہیں، ان کی تازہ ہرزہ سرائی کہ بنگلہ دیش کے بعد سندھو ، سرائیکی اور پختون دیش بھی بن سکتے ہیں افسوسناک ہے۔ حکومت اور غیر جمہوری قوتوں کو نہیں بلاول کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ، انہیں جناح پور کا خواب دیکھنے والوں کا انجام سامنے رکھنا چاہئے جن کی اب کہیں آہٹ اور بھنک تک سنائی نہیں دیتی۔
2006 ء کے میثاق جمہوریت لوٹ مار مک مکا کی صورت میں سامنے آ کر دفن ہو گیا ۔ اب سرکار اور چیف الیکشن کمشنر میں ٹھن گئی ہے۔ وفاق کی نظریں کراچی کی حکمرانی پرجمی ہیں۔ پنجاب کی حکمرانی بھی زلزلے کی زد میں ہے۔ صوبائی خودمختاری کی باتیں چل نکلی ہیں، اپوزیشن تاش کے بکھرے پتے ہیں، انہیں جوڑنے والا کوئی نواب زادہ نصراللہ خان کہاں سے آئے۔ نواز شریف اب غیر لچک دار رویہ اپنا چکے اور کسی پلی بارگین کی طرف نہیں آئیں گے ۔ کتنے محاذوں پر کوئی کتنی دیر لڑیگا؟ آصف زرداری سے بات ہو رہی ہے رابطہ کار کون ہے؟