انجینئرنگ اور میڈیکل تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں کیوں؟
مکرمی ! ایف ایس سی میں اچھے خاصے نمبر لے کر بھی طلباء و طالبات میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ کالجوں یا اداروں میں داخلہ نہیں لے پاتے ہیں بلکہ چین، روس، برطانیہ یا دیگر ممالک میں میڈیکل میں 30 لاکھ روپے خرچ کر کے داخلہ لے لیتے ہیں۔ ایم بی بی ایس اور انجینئر کے لئے داخلہ کے لئے بنیادی تعلیم ایف ایس سی ہے لیکن ان داخلوں کے ساتھ چند سالوں سے MDCAT اور ECAT کی شرط رکھ کر طلباء و طالبات کی قابلیت کو دوبارہ جانچا جاتا ہے حالانکہ پنجاب کے علاوہ باقی صوبوں سندھ، بلوچستان، آزاد کشمیر، کے پی کے، بلتستان میں ان ٹیسٹوں کے ذریعہ میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ نہیں ہوتا۔ ایک ہی ملک میں مختلف پالیسی ہونا بھی ڈسکرمیشن اور بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں حکومت کو صبح کے علاوہ شام کی کلاسوں کا بھی بندوبست کرنا چاہئے اور ایسی پالیسی بنانی چاہئے جس میں شام کی کلاسوں کا میرٹ کم ہوا اور واجبات بھی کم ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء و طالبات داخلہ لے کر ڈاکٹرز اور انجینئرنگ بن سکیں۔ حکومت ان سرکاری میڈیکل اور انجینئر کالجوں میں فیکلٹی کو آسانی سے شام کی کلاسیں شروع کر کے استعمال کر سکتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان زرمبادلہ جو دنیا بھر کے میڈیکل اداروں میں پاکستانی طلباء کے داخلہ کی مد میں ٹرانسفر ہوتا ہے۔ پاکستان ہی میں رہ سکتا ہے۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اور پاکستان وٹرنری میڈیکل کونسل کو اپنی داخلہ پالیسی میں عوامی ضروریات کو مد نظر رکھ کر تبدیلیاں لانی چاہئیں۔ حکومت اور ریاست کا کام عوام کو تعلیمی حصول میں آسانیاں پیدا کرنا اور تعلیم کو فروغ کے لئے اقدامات کرنا ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پاکستان بھر کے بورڈوں سے طلباء و طالبات ایف ایس سی اور میٹرک کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اور معیاری اداروں میں اوپن میرٹ اور فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو متوسط طبقہ بھی برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ جس سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں طلباء اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایف ایس سی کرنے کے بعد MDCAT اور ECAT کو داخلہ پالیسی میں شامل کر کے طلباء کی قابلیت کی توہین کی جاتی ہے۔ ایسی قدغنیں حکومت کو بچوں کی حوصلہ افزائی اور تعلیم کو عام کرنے کے لئے ختم کرنی چاہئیں۔ (سید عارف نوناری : لاہور)