سپریم کورٹ نے پاکستان کی بڑی منرل واٹر کمپنیوں کے پانی کے معائنے کا حکم دے دیا ، عدالت نے واٹر کمپنیوں کی جانب سے آڈٹ کیلئے ایک ماہ کی مہلت کی استدعا مستردکردی ،چیف جسٹس ثاقب نثارنے کہا کہ پانی ایک ایسا ایشوہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ایک لیٹر پانی 50 روپے کا بیچا جارہا ہے اور خزانے میں ایک پیسے کا آٹھواں حصہ دیا جارہا ہے، غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری ضرور کریں لیکن ملکی قوانین کی پابندی بھی کریں،جو سہولیات ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملیں گی وہی مقامی سرمایہ کاروں کو بھی ملیں گی، قدرتی پانی کے استعمال پر ہر کمپنی کو ٹیکس دینا پڑے گا ، فرانزک آڈٹ کے بعد طے ہوگا کہ کمپنیاں حکومت کو کتنی ادائیگی کریں گی۔اتوار کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔اس موقع پر واٹر کمپنیوں کی جانب سے آڈٹ کے لیے ایک ماہ کی مہلت دینے کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ 20 سال سے کمپنیاں صرف منافع ہی کما رہی ہیں اور کمپنیاں پانی لینے کے عوض جو پیسے ادا کررہی ہیں وہ دنیا میں سب سے کم ریٹ ہے ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کمپنیوں نے اربوں روپے کا منافع کمایا لیکن حکومت کو انتہائی معمولی رقم ادا کی، اب وقت آگیا ہے کہ جو قوم نے ہمیں دیا اسے لوٹانا ہے، لوگوں میں احساس پیداہوگیا ہے کہ اب ہمیں پوچھا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پانی ایک ایسا ایشوہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اب بڑی بڑی سوسائٹیوں کا نمبر آنا ہے جو ٹیوب ویل لگا کر رہائشیوں سے پوری قیمت وصول کرتی ہیں مگرحکومت کو ایک پیسہ نہیں دیتیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئندہ ہفتے سوسائٹیوں میں پانی کی فراہمی سے متعلق بھی کیس کی سماعت شروع کریں گے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ایک لیٹر پانی 50 روپے کا بیچا جارہا ہے اور خزانے میں ایک پیسے کا آٹھواں حصہ دیا جارہا ہے، پانی کے عوض ملکی خزانے میں انتہائی معمولی رقم جمع کروائی گئی، غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری ضرور کریں لیکن ملکی قوانین کی پابندی بھی کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاری ہے، جو سہولیات ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ملیں گی وہی مقامی سرمایہ کاروں کو بھی ملیں گی، قدرتی پانی کے استعمال پر ہر کمپنی کو ٹیکس دینا پڑے گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر پانی کی صورتحال یہی رہی تو ہمارے بچوں کو پانی نہیں ملے گا، فرانزک آڈٹ کے بعد طے ہوگا کہ کمپنیاں حکومت کو کتنی ادائیگی کریں کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کے بعد کمپنیاں مناسب قیمت ادا کریں گی اور ریٹ بھی مناسب رکھیں گی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024