اتوار ‘ 5؍محرم الحرام 1440 ھ ‘ 16؍ ستمبر 2018ء
برلن میں والدین کی توجہ حاصل کرنے کیلئے بچوں کا موبائل کیخلاف مظاہرہ
جب سے یہ موبائل نامی بلا دنیا میں وار ہوئی ہے۔ تقریباً ہر فرد اس کا شکار نظر آتا ہے۔ کیا عام کیا خاص چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک سب کی حالت غیر کر دی ہے اس بیماری نے… بچوں اور جوانوں کی توجہ اس موبائل فونز کی وجہ سے پڑھائی اور کام کاج سے ہٹ گئی ہے۔ نہ کھانے کی فکر نہ پینے کی پرواہ۔ جب دیکھو جسے دیکھو ہاتھ میں موبائل تھامے نظر آتا ہے۔ اب برلن میں گزشتہ روز چھوٹے بچوں نے دودھ پیتے نہیں سکول میں پڑھنے والی عمر کے بچوں نے ایک عجیب مظاہرہ کیا۔ یہ معصوم بچے کسی اور کے خلاف نہیں اپنے ہی والدین کیخلاف احتجاج کر رہے تھے۔ انہوں نے جو پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے ان پر درج تھا کہ ہمارے والدین موبائل فونز کی بجائے ہم پرتوجہ دیں۔ موبائل سے کھیلنے کی بجائے اپنے بچوں سے کھیلیں، جیسے نعرے درج تھے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کے والدین بھی گھروں میں زیادہ تر وقت موبائل کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ماں ہو یا باپ اس بٹیرے کو ہاتھ میں پکڑے رہتے ہیں کہیں اُڑ نہ جائے۔ یہ عادت ہمارے ہاں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ پہلے صبح سکول جانے سے پہلے ناشتے پر والدین اور بچے یکجا ہوتے تھے۔ دعائیں لیتے تھے۔ دوپہر کو سکول سے آ کر بچے گھر میں شور شرابا کرتے تھے اماں سے باتیںکرتے تھے۔ شام کو اباجی آ کر نیا موضوع سخن تراشتے تھے۔ یوں گھر میں چہل پہل رہتی تھی۔ ہزاروں معاملات پر بات ہوتی۔ اب یہ حال ہے کہ گھر میں اگر 10 افراد بھی ہیں تو سب موبائل پر مصروف نظر آتے ہیں۔ بھرا ہوا گھر کسی قبرستان کا منظر پیش کرتا ہے ۔ اب دیکھتے ہیں پاکستانی بچے کب موبائل کے خلاف باہر نکلتے ہیں۔
٭٭٭٭
کام کوئی اور کرا رہا ہے معائنہ کرنے آپ آ گئے: میئر کراچی پر شہری کا طنز
یہ طنز و مزاح تو کراچی کی جان ہے۔ فیصل آباد والوں کی طرح بات بات پر جملے کسنا اور کوئی نہ کوئی نئی پھلجڑی چھوڑنا ان کا ہی خاصہ ہے۔ ویسے بھی جب بات کرتے ہوئے پان منہ میں ہو تو پھر واقعی
پان کھائے سیاں ہمارو
بھولی صورتیا پہ ہونٹ لال لال
ہوں تو منہ سے نکلی ہوئی ہر بات چٹکلہ ہی محسوس ہوتی ہے کیونکہ آج کل پان تو مہنگے ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ گٹکا کھا کر گزارا کر رہے ہیں۔ ان سے تو پوری طرح منہ کھول کر بات نہیں ہوتی۔ مگر چونکہ کراچی کا مزاج شروع ہی سے آزادانہ اور جمہوری ہے اس لئے جمہوریت ہو یا آمریت جس نے بھی عوام سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی اس کا مزاج ٹھکانے لگانے میںکراچی والوں نے پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ گزشتہ روز میئر کراچی زیر تعمیر سڑک کامعائنہ کرنے آ گئے ایک سر پھرے نے فوراً انہیں ٹوکا اور کہا کہ کام توکوئی اور کروا رہا ہے آپ کیوں معائنہ کرنے آئے ہیں۔ اس پر میئر اور شہری میں ایک دوسرے کو تمیز سے بات کرنے پر دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی سندھ حکومت ، مقامی انتظامیہ اور بلدیاتی نمائندوں کے ہاتھوں جس اجاڑ پن کا شکار رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اب چیف جسٹس کے پے درپے دوروں کی وجہ سے ذرا ان اداروں کو ہوش آیا اور وہ گندگی اٹھانے اورسڑکوں کی حالت سدھارنا شروع ہوئے ہیں تو میئر صاحب بھی جاگ اٹھے ہیں۔ پچھلے دس برس سے یہ سب کہاں تھے۔ یہ پوچھنا ہر شہری کا حق ہے اور وہ بے دھڑک استعمال کر رہے ہیں تو پریشانی کیسی۔
٭٭٭٭٭
پاکستانی ڈیف کرکٹ ٹیم نے سہ ملکی ٹورنامنٹ میں بھارت کو ہرا دیا
سچ کہیں تو پاکستانیوں کو سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب پاکستان کسی میدان میں بھارت کے چھکے چھڑاتا ہے ا ور اسے شکست سے دوچار کرتا ہے۔ اب بنگلہ دیش میں جاری سہہ ملکی ڈیف کرکٹ سیریز میں پاکستانی ٹیم نے پہلے میزبان بنگلہ دیش کی ٹیم کو 37 رنز سے شکست دی۔ اس پر معلوم نہیں تعصب کے مارے بنگالی دھاڑیں مار مار کر روئے یا نہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ بنگلہ دیشی بھارت سے ہارنے پر اتنی شرم محسوس نہیں کرتے جتنی تکلیف انہیں پاکستان سے ہارنے پر ہوتی ہے۔ گزشتہ روز کے دوسرے میچ میں ہماری ٹیم نے بھارت کی ڈیف کرکٹ ٹیم کو بھی دھول چٹا دی۔ اس طرح پاکستان کو اس سہ فریقی ٹورنامنٹ میں برتری ملی ہے جس سے ان کھلاڑیوں کے حوصلے بھی خوب بلند ہوئے ہوں گے۔ دوسری طرف دبئی میں بھی ہماری صحت مند کرکٹ ٹیم ایشیاء کپ کھیلنے کے لئے موجود ہے۔ شدید گرم موسم میں وہ خوب تیاریاں کر رہی ہے۔ دعا ہے ان کی یہ محنت کام آئے۔ خاص طور پر اس وقت جب 19 ستمبر کو پاکستانی شیروں کا مقابلہ بھارت کے ساتھ ہو گا۔ پاکستانی ہمیشہ بھارت کے ساتھ مقابلے میں جذباتی ہو جاتے ہیں یا گھبرا جاتے ہیں معلوم نہیں کیوں۔ اس لئے انہیں پریکٹس کے ساتھ ساتھ اپنی اس نفسیاتی خامی پر بھی قابو چاہئے۔ کیونکہ میدان میں کھیل پاکستان کی ٹیم رہی ہوتی ہے مگر مقابلہ پاکستانی قوم کو درپیش ہوتا ہے جو ہر ایکشن پر ہر گیند پر ہر شارٹ پر سانس روکے ہوتی ہے۔ اس لئے ہماری ٹیم قوم کی دعائوں کے ساتھ اپنی خامیوں پر قابو پاتے ہوئے اچھا کھیل بھی پیش کرے توجیت سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭
سمندر پار پاکستانیوں کی ووٹ رجسٹریشن میں توسیع
ہم پاکستانی پہلے شور مچاتے ہیں کہ ہمارا یہ مسئلہ ہے ہمارا یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ جب کوئی اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے تو ہم سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ بیرون ملک کام کرنے والے لاکھوں پاکستانی تارکین وطن نے کب سے شور مچایا ہوا تھا کہ انہیں بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔ جس پر موجودہ حکومت نے ایکشن لیا اور یہ اجازت انہیں دے دی جس کے بعد آنے والے ضمنی الیکشن میں جن جن حلقوں میں تارکین وطن ہیں ان کو بذریعہ ای ووٹنگ ووٹ ڈالنے کی اجازت ہو گی، مگر تارکین وطن کے ووٹوں کی اندراج کی حالت یہ ہے کہ لاکھوں تارکین وطن میںسے ابھی تک صرف چند ہزار افراد نے ہی ابھی رجسٹریشن کرائی ہے۔ اتنی قلیل تعداد کو دیکھ کر اب حکومت نے تارکین کے ووٹ درج کرانے کی تاریخ میں مزید توسیع کر دی ہے۔ اُمید ہے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے تارکین وطن اپنے ووٹوں کا اندراج اسی جوش و جذبے سے کرائیں گے جس جوش و جذبے سے وہ اپنا ووٹ ڈالنے کا حق مانگتے تھے۔ لہٰذا مشتری ہوشیار باش کہیں یہ مدت توسیع بھی ختم نہ ہو جس کے بعد ہمارے تارکین وطن کوایک بار پھر ہوش آ جائے اور وہ مدت بڑھانے کا مطالبہ دہرانے لگیں…
٭٭٭٭٭