’’وقت کم ہے اور مقابلہ سخت‘‘ ماضی میں ایک ڈرامے میں سنا تھا۔ اب ایک حقیقت کے طور پر سامنے ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو یہی چیلنج سامنے ہے۔ پاکستان کو ناکام سٹیٹ کے طور پر دیکھنے والے آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے یکطرفہ دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور کرتار پور سرحد کھولنے کا اشارہ دینے کے باوجود امریکی وزیر خارجہ پاکستان اور بھارت کے دورے کے بعد مشترکہ بھارت، امریکہ اعلامیہ واضح کر رہا ہے کہ پاکستان کو ہر قیمت پر نیچا دکھانے کے لئے مخالفین کس حد تک نیچے گر سکتے ہیں۔ باہر کے مسائل سے زیادہ اندر کے مسائل ہیں۔ ماضی کی طرح لگتا ہے کہ نئی حکومت پروٹوکول انجائے کرنے اور مزے لینے کے لئے نہیں آئی۔ روزانہ کی بنیاد پر اجلاس ہو رہے ہیں۔ فیصلے ہو رہے ہیں۔ عمران خان ماضی میں جن دو تین اہم مسلمان لیڈروں کا حوالہ دیتے آئے ہیں۔ ان میں مہاتیر محمد (ملائشیاء کے ایک بار پھر وزیراعظم بننے والے) بھی شامل ہیں۔
مہاتیر محمد نے اپنے گزشتہ دور اقتدار میں ملائیشیاء کو عالمی برادری میں بہت اونچا اٹھایا تھا۔ عمران خان کو 22 برس کی جدوجہد کے بعد موقع ملا ہے۔ وہ اپنی منزل کے لئے ہر لمحہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے اپنی سیاسی اتحادی اور وفاقی وزیر ریلوے کی پندرہ روزہ کارکردگی اور کباڑ خانے میں پھینک دی جانے والی دو ٹرینوں کے دوبارہ ٹریک پر لانے پر اتنے خوش نظر آتے ۔ ویسے تو پاکستان میں ہر محکمہ خرابیوں کا خزانہ بن چکا ہے مگر ریلوے ان میں نمایاں ہے۔ ریلوے کا ایسا بیڑا غرق ہو چکا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے محنتی اور پرجوش رہنما خواجہ سعد رفیق بھی اپنے دور وزارت میں اس کے کچھ پہلوئوں کو ہی راہ راست پر لا سکے۔ ریلوے کے ہزاروں پراسرار معاملات ہیں۔ دنیا بھر میں بہترین ڈبے تیار کرنے والی پاکستانی ورکشاپوں کو چھوڑ کر باہر سے ’’سودا‘‘ منگوانا ریلوے زمینوں کا صحیح استعمال کرنا کمرشل پہلوئوں کو نظر انداز کرنا اور اس جیسے بہت سے مسائل ہیں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ گھوسٹ ملازمین کا ہے۔ گزشتہ عرصے سے ملک بھر میں خصوصاً سندھ میں محکمہ تعلیم اور دوسرے اداروں میں گھوسٹ ملازمین بلکہ گھوسٹ سکولوں تک کا کھوج لگایا گیا ہے۔ محکمہ تعلیم میں گھوسٹ سکولوں اور اساتذہ کا کھرا مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن راہنما میاں شہبازشریف نے اپنے دوسرے وزارت اعلیٰ کے دور میں لگایا تھا۔ تب ان کی تقاریر میں گھوسٹ جن بابا کا بھی تذکرہ ہوا کرتا تھا۔ اس حوالے سے عملی کام کر کے انہوں نے شہرت پائی تھی۔ نیا دور ویسے بھی احتساب اور چھان بین کا دور ہے۔ چنانچہ اب ریلوے میں گھوسٹ ملازمین کے خلاف کارروائی وفاقی ریلوے کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہونی چاہئے۔ شیخ رشید تو ویسے بھی شیخ ہیں اور انہیں گہرائی میں جا کر بال کی کھال اتارنا آتا ہے۔ وہ ماضی میں اطلاعات اور ریلوے کے وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ ریلوے کے بجٹ پر ایک بڑا عذاب یہ گھوسٹ ملازمین ہیں جن میں سے اکثر کو ریلوے یونینوں، سیاستدانوں یا ریلوے کی بیورو کریسی کی پشت پناہی حاصل ہے۔
یہ بات زبان زدعام ہے کہ لاہور میں ریلوے کیرج شاپ والی سڑک پر سینکڑوں دکانوں والے بیشتر حضرات دراصل ریلوے کے ملازم ہیں جو ہر مہینے کے اختتام پرطے شدہ ’’معاہدے‘‘ کے تحت مقرر حصہ ادا کر کے اپنی سیلری وصول کرتے ہیں اور اپنا کام سبزی فروٹ کی دکانوں پر یا رکشہ اور اسی طرح کی دوسری مصروفیات میں گزارتے ہیں۔ یہی حال دوسرے بڑے شہروں کا بھی ہے شیخ رشید بہت متحرک اور پرجوش سیاستدان ہیں اور ان دنوں تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی طرح وہ بھی اپنے محکمے کی چار پائی کے نیچے ڈانگ پھیرنے میں مصروف ہیں انہوں نے ایک سال میں ریلوے کا خسارہ ختم کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ گھوسٹ ملازمین ریلوے کا بھاری پتھر ہیں اگر شیخ صاحب یہ پتھر اٹھا لیتے ہیں تو ریلوے کا ایک بڑا بوجھ ختم ہو جائے گا۔
نئے پاکستان میں جہاں لوگ ہر طرف دیانتداری کرپشن کا خاتمہ، میرٹ کا رواج اور واضح تبدیلی دیکھنے کے متمنی ہیں، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ گھوسٹ ملازمین جیسے فراڈ کا بھی خاتمہ ہو اور صرف کام کرنے والے لوگوں کی عزت افزائی ہو۔ کیا ایسا ہو سکے گا؟
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024