نظا م جمہوریت میں انتخابات میں حصہ لینے والی ہر سیاسی پارٹی اپنے ووٹرز کو ان کے حالات زندگی بدلنے اور معیار ِ حیات میں تبدیلی لانے کے سہانے خواب اپنی بساط کے مطابق دکھاتی ہے ۔ البتہ کامیاب وہی پارٹی ہوتی ہے جو لوگوں کو اپنے وعدوں ، دعووں کے سحر میں زیادہ تیزی اور اثر انگیزی سے مبتلا کر لیتی ہے ۔ موجودہ حکمران پارٹی پاکستان تحریک انصاف کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے کہ اس کے چئیرمین اور روح رواں ماضی کے بین الاقوامی کرکٹ کے ہیرو اور سیاست میں بے داغ ماضی کے حامل لیڈر ہونے کے ناطے اور پچھلے پانچ سالوں میں کثیر تعداد میں دھرنوں اور احتجاج کی بناء پر قوم کے مقبول ترین سیاسی رہنما بن کر ابھرے اور حالیہ انتخابات میں تھوڑی مضبوط پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔جو خواب دکھائے گئے اورجو وعدے انہوں نے قوم سے کئے ان کے ووٹر آج تک وہی خواب دیکھ رہے ہیں اور مکمل یقین کے ساتھ اس انتظار میں ہیں کہ جلد ہی ملک میں تبدیلی آجائے گی ۔ جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس کی چند گاڑیوں کی نیلامی، وزیر اعظم ہاؤس کی بجائے ایک ملٹری سیکرٹری کے گھر میں وزیر اعظم آفس کے قیام ، 4عدد خراب ہیلی کاپٹر وں کی نیلامی کی ناکام کوشش اور سابق وزیر اعظم کو تحفے میں ملنے والی آٹھ بھینسوں کی نیلامی کے ارادے ، پھر چاروں گورنرز کے اپنے اپنے پرانے گورنر ہاؤسز کی بجائے اپنے گھروں میں رہنے کے بقول حکومت انقلابی فیصلوں کے علاوہ کوئی تبدیلی یا کسی تبدیلی کا نقطہ آغاز قوم کو نظر نہیں آرہا ۔ ہاں ایک نقطہ آغاز یہ ضرور نظر آیا ہے کہ چند سرکاری اداروں میں رشوت کمانے والی سیٹوں کی تلاش بھی جاری ہے اور یہ اندازے بھی لگائے جارہے ہیں کہ ان سیٹوں پر روزانہ ، ماہانہ اور سالانہ کتنی کتنی رشوت وصول کی جاتی ہے ۔ جبکہ تبدیلی سرکار نے اب ایک منی بجٹ لانے کے لئے بھی کمر کس لی ہے او ر خدشہ ہے کہ یہ بجٹ ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر لائے گا ۔ حکومت کی توجہ کے لئے یہاں یہ عرض کرنا انتہائی ضروری ہے کہ بجٹ آنے کی خبر سنتے ہی ریٹیلرز اور ہول سیلرز نے ذخیرہ اندوزی اور گرانی کی پرانی عادت کو معمول بنا لیا ہے ۔ یعنی تاجروں کی عادت اور روش آج بھی پرانے پاکستان والی ہے ۔
تبدیلی تو ابھی تک سرکاری دفتروں ، ضلع اور تحصیل کی سطح کی عدالتوں اور محکموں کے اہلکاروں کے رویہ میں بھی نہیں آئی ۔ عدالتیں بھی اپنی پرانی ڈگر پر چل رہی ہیں اور تھانے بھی اسی طرح ـ''کام ''کر رہے ہیں ہاں ایک اضافہ یا تبدیلی یہ ضرور ہوئی ہے کہ اچھی شہرت کے حامل پولیس آفیسر ناصر درانی نے پنجاب پولیس کی سرپرستی قبول کر لی ہے اور ان کے رابطہ نمبرز بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں ۔ اوراب تک کی اطلاعات کے مطابق ابھی تک کسی بھی پولیس سے متاثرہ شہری نے ناصر درانی سے رابطہ کر کے کسی بڑی کاروائی کی درخواست نہیں کی ۔ جس کاروائی سے پولیس کے فرسودہ نظام پر ضربِ کاری پڑے ۔ حالانکہ تبدیلی یہ آنی چاہیے تھی کہ عام آدمی کو ہر چیز مقررہ نرخ پر ملتی اور مصنوعی گرانی کرنے والوں کو گرفت میں لینے والے ادارے اور اہلکار یکسو اور مستعد ہوجاتے ۔بجلی ، گیس اور پانی کے بلوں میں کمی آجاتی ۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہو جاتی ۔ پنجاب کے تین دریا جو بند ہوچکے ہیں ان کی روانی کی کوئی سبیل کی جاتی ۔ ہاں البتہ دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈ ریزنگ اور جناب چیف جسٹس صاحب کی اس مقصد کے ساتھ لگن قابل تعریف ہے کہ ان کی توجہ سے کم از کم ریاست کی ایک اور جائیداد بن جائے گی ۔
تبدیلی کے خواہاں اور وزیر اعظم عمران خان کے ووٹر ز اور سپورٹرز کا مندرجہ بالا حقائق سے ابھی تک کوئی اتفاق نہیں ہوسکا اور وہ صرف ایک ہی رٹ لگا رہے ہیں کہ ابھی تو وزیر اعظم آکے بیٹھے ہیں ۔انہیں تھوڑا وقت تو دیا جائے انشاء اﷲ سب ٹھیک ہو جائے گا یعنی ابھی تک لوگ وزیر اعظم سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ سب ٹھیک کردیں گے ۔ عام لوگوں اور پی ٹی آئی ووٹرز سے ہٹ کر وہ خاص لوگ جو آنے والے حالات اور حکومت و سیاست پرگہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ شاید عادتاً ابھی سے ہی مایوس نظر آتے ہیں ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ تبدیلی تب آئے گی جب نظام بدلے گا ۔ اور نظام بدلنے کے لئے پرانے ظالمانہ ضابطوں کو ناکارہ کرنا ازحد ضروری ہے ۔ان یار لوگوں کا خیال ہے کہ بے شک تبدیلی آہستہ آہستہ آئے لیکن تبدیلی کی جانب سفر کا تو آغاز ہو ۔ لوگوں کو بروقت اور مفت انصاف ملے ۔ چوروں ، جرائم پیشہ عناصر ، ملاوٹ مافیا ، سٹریٹ کریمنلز اور مصنوعی گرانی کرنے والوں کی فوری گرفت والا نظام نافذ ہو ۔ بیروزگاروں کو روزگار اور بے گھروں کو سر چھپانے کے لئے اپنی چھت تو میسر آنے کی امید پیدا ہو ۔ آئی ایم ایف سے نجات حاصل کرنے کا کوئی قابل بھروسہ پروگرام تو سامنے آئے ۔ گلیوں ، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں صفائی ستھرائی کا معقول انتظام تو نظر آئے ۔ نا جائز تجاوزات اور قبضہ گروپوں کے خاتمہ کے لئے کوئی ٹاسک تو طے کیا جائے ۔ اجارہ دار اور سرمایہ دار طبقہ کی نفوذ پذیری اور دولت گھٹانے کا کوئی انقلابی پروگرام تو زیر بحث آئے ۔ دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا ملک گیر نظام تو وضع کیا جائے ۔
بے شک اسے لاگو کرنے میں پانچ سال لگ جائیں لیکن تبدیلی کی حقیقی کرن تو چمکے ۔ یہ دنیا کا اصول اور انسانی نفسیات کی حقیقت ہے کہ جب تک بہتری نظر نہ آئے کوئی بھی ذی شعور بدتری کو بہتری نہیں کہہ سکتا اور جب عملاً بہتری نظر آئے تو اس بہتری کے حق میں وہ عوامی طاقت بھی آجاتی ہے جو کہ اکثر برے حالات میںخاموش اور کنارہ کش رہتی ہے لیکن اگر بہتری کے آثار ہی نظر نہ آئیں تو بہتری کادعویٰ کرنا خود کو یا لوگوں کو بے وقوف بنانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا ۔بابائے صحافت میرے مرشد جناب مجید نظامی مرحوم اکثر ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ امید اور اچھے دنوں کی آس کبھی ختم نہیں کرنی چاہیے اسی نقطہ نظر سے ہماری تو موجودہ وزیراعظم سے کافی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ جس تبدیلی کا نعرہ لگا کر آئے ہیں وہ تبدیلی ضرور آئے گی ۔ پاکستان زندہ باد۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024