گزشتہ دنوں شاہ سلمان امریکہ گئے تو انہوں نے واشنگٹن میں 222 کمروں کا فورسیزن ہوٹل بک کرا لیا۔ ایک کمرے کاروزانہ کا کرایہ 2 ہزار ڈالرہے۔ہوٹل کو مہمانوں کے شایانِ شان سجایا گیا ۔ راہداریوں میںنئے سرخ قالین بچھائے گئے۔ روشنیوں سے نہائے اور بقعہ نور بنے ہوٹل کے ہر کمرے کو سونے کے فرنیچر سے مرصع کیا گیا تھا۔ جولائی میں شاہ سلمان ایک ہزار افراد کے شاہی وفد کے ساتھ فرانس 3 ہفتے کی چھٹیاں منانے گئے تو تفریحی ساحل’ فرنچ رویرا‘ان کے لئے مختص کردیا گیا تھا۔ ایک دوست بتا رہے تھے وہ ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب گئے تو اپنے عزیز کو ملنے جدہ گئے جو فرانسینی کنسٹرکشن کمپنی کارل سون میں کام کرتا تھا۔ اس کی رہائش سائٹ پر تھی۔ میزبان نے بتایا کہ یہاں کئی سال سے محل تعمیر ہورہا ہے۔ شہزادہ محمد بن فہد کی شادی ہونے والی ہے، وہ اس محل میں شادی کی پہلی رات گزاریں گے۔ ایسے محلات بعدمیں شایدنواز شریف،عدی امین اور تیونس کے زین العابدین بن علی جیسے اپنے اپنے ملک میں زیر عتاب آئے ”بادشاہوں“ کے قیام کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک عرب حکمران نے جوئے میں یکمشت دس ارب ڈالر ہار دیئے۔ ایسے بادشاہوں کا ایلان جیسے بچوں کی طرف کبھی دھیان گیا نہیں جبکہ ہمارے اکابرین سیاست کا ایان جیسی حسیناﺅں پر سے کبھی دھیان ہٹا نہیں۔
لاہور کے قریب دریا کے اندر کامران کی بارہ دری ہے۔ مغل شہزادے کامران کو تفریح طبع اور موج مستی کےلئے دریا کے پانیوں کے اندر یہ مقام پسند آیا۔ شاہ جہاں نے اپنی محبوب ملکہ ممتاز محل کی محبت میں تاج محل بنوایا۔ ممتازمحل چودھویں بچے کو جنم دیتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملی تھیں اور یہ خاتون بادشاہ سلامت کی اکلوتی اور واحد اہلیہ بھی نہیں تھیں۔ شاہ جہاں نے چارشادیوں کی شرعی اجازت سے مکمل استفادہ کیا تھا۔ تاج محل کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ممتاز محل کو ہندی ممتاج محل بھی کہا جاتا تھا۔ ممتاج مختصر ہو کر تاج رہ گیا۔
ہر انسان کے اندر ایک بادشاہ ضرور ہوتا ہے جو اپنی حیثیت کے مطابق خوشیاں حاصل کرنے اور خواہشات پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے، بادشاہ تو پھر بادشاہ ہوتا ہے۔ بادشاہوں کے شوق کی کوئی حد نہیں ہوتی مگر ہمارے جمہوری حکمران ،بیوروکریٹس جج اور جرنیلوں تک موقع ملتے ہی شاہی انداز اختیار کرلیتے ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو 6 میں سے چار ساڑھے چار سال تو ہم جیسے لوگ بڑا مدبر، پیشہ ور اور اپنے کام سے کام رکھنے والا جرنیل سمجھتے رہے۔ آخری سال ڈیڑھ سال میں انکے جوہر کھلنے لگے، وہ صدر زرداری کی لائن پر چڑھ چکے تھے۔ ان کے بھائیوں کے کاروبار اور ٹھیکوں کی داستانیں عام ہوگئی تھیں۔ اب تو خیر سے فوج کے اندر ان کے احتساب کی باتیں ہورہی ہیں۔ کہا جاتا ہے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل آخر دنوں آرمی گاف کلب میں دو منزلہ ہٹ تعمیر کرنے کی ہدایت کی جس میں بیٹھ کر وہ چائے کا کپ پینا چاہتے تھے۔ اجاڑ میں واش روم کے استعمال کےلئے آنے والوں کا ”کیانی ہٹ“ کی افتتاحی تختی والہانہ استقبال کرتی ہے۔ گاف کلب میں داخل ہوں تو ٹی بار پر ”دتہ ہٹ“ کی تختی لگی ہے۔ پوچھا کیا دتہ بھی کوئی جنرل تھا تو معلوم ہوا کہ اللہ دتہ ٹی بار چلاتا تھا، اس کی خدمات کے اعتراف میں اس کے نام پر ہٹ بنادیاگیا۔ جسٹس افتخار چودھری کو شاہی پروٹوکول زیادہ ہی پسند تھا۔ تصدق حسین جیلانی مختصر عرصہ کے لئے چیف جسٹس بنے تو لاہور میں گاڑیوں کا لاﺅ لشکر ان کے آگے پیچھے تھا۔ الطاف حسین کا ہر اقدام ظالمانہ اور شاہانہ رہا ہے۔
شہباز شریف فرمانِ شاہی جاری کر کے ر یکارڈ مدت میں پل بنا اور میٹروز چلادیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی گورنمنٹ نے ملک کوگنڈیری کی طرح چوسا اور چھلّی کی طرح چُو±نڈاہوانندی پورپاور منصوبہ دنوں میں مکمل کرنے کا حکم دیا۔وہ اس کا دھوم دھڑکّے سے افتتاح کرناچاہتے تھے۔ افتتاحی تقریب کے ”دلہا“ میاں نواز شریف تھے۔منصوبے کا ابتدائی تخمینہ22ارب روپے تھا۔جسے افتتاح کے شوقینوں نے 52ارب تک بڑھایا جبکہ قوم کو کو یہ منصوبہ 84ارب روپے میں پڑا۔ آج یہ پراجیکٹ بند پڑا ہے تاہم افتتاح کا شوق پورا ہوگیا۔اس پراجیکٹ کے ڈائریکٹر پی ایچ اے کے ڈائریکٹرکیپٹن (ر) محمود تھے۔ شہباز شریف کی سفارش پر انہیں تمغہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا گیا۔ انہوں نے شہباز شریف کی مقرر کی ہوئی مدت کے دوران اپنے باغبانی کے شعبے میں مہارت کو بروئے کار لا کر پاور پراجیکٹ ”اُگا“ کر دکھا دیا۔ خواجہ آصف شہباز شریف کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیںکہ پاور پراجیکٹ میٹرو نہیں جو ڈیڑھ سال کے بجائے چند ماہ میں مکمل ہو جائے۔شاہی درباری نے اب پانسا پلٹتے ہوئے کہا ’ نندی پور سکینڈل کی ذمہ دری قبول کرتا ہوں....ذمہ داری قبول کی ہے تو 52ارب کے اوپر کی رقم خواجہ آصف خزانے میں جمع کرادیں! ملزم اعتراف کے بعد مجرم بن کر سزا مستوجب ٹھہرتا ہے۔
زرداری صاحب کے کندھے پر اقتدار کا کوا بیٹھا تو ان کی طبیعت میں شاہی انداز غالب آگیا،انہوں نے وزیروں کی لائن لگا دی۔ ایک موقع پر سو سے زائد وزیر اور مشیر تھے۔ ہر کسی کوکمیشن کی شرط پرکھل کھیلنے کی چھٹی تھی۔ شکر ہے قوم کو عقل آ گئی اور ان لوگوں کو اپنی خدمت کا ایک اور موقع نہیں دیا۔ ان کی جگہ مسلم لیگ ن کو تیسری بار آزمانے کا فیصلہ کیا ۔ اب اس فیصلے پر پچھتا واہے۔ میاں محمدنواز شریف نے سرور پیلس میں رہ کر کچھ اور سکھایا نہیں سیکھا، شاہی آداب، انداز اور اطوار سیکھے اور اختیار بھی کئے۔ دہشتگردوں کے خاتمے کی جنگ شدت سے لڑی جارہی ہے۔ میاں صاحب کو ان حالات میں غیر ملکی دوروں سے فرصت نہیں۔ لوگ سیلاب میں ڈوبے ہوئے تھے، وزیر اعظم صاحب دس دن کے عمرے پر تھے۔ ملک میں ہوں تو ویک اینڈ پر لاہور اور گرمی میں مری پائے جاتے ہیں۔ نلتر میں حادثہ ہوا تو پتہ چلا غیر ملکی سفیروںکے خاندانوں کو وزیر اعظم صاحب نے پکنک کی دعوت دے رکھی تھی۔ گزشتہ دنوں موسم کی خرابی سے ہیلی کاپٹر کو مانسہرہ اتارنا پڑا تو خبر سامنے آئی کہ میاں صاحب ناران، کاغان جا رہے تھے۔
ہر جرنیل حکمران خود کو بادشاہ سمجھتا اور آج کے سیاستدان کسی نہ کسی دور میں جرنیل شاہی کے ساتھی رہے ہیں۔ پی پی پی کے بانی بھٹو صاحب ایوب خان کو ڈیڈی کہتے۔ میاں صاحب جنرل ضیاءکے اتنے قریب اور معتمد تھے کہ انہوں نے اپنی زندگی نواز شریف کو لگنے کی دعا کی جو شاید منظور بھی ہو گئی۔ ہمارے ہاں مروجہ جمہوریت کو جس انداز سے چلایا جا رہا ہے اسے شاہی جمہوریت کہنا زیادہ بہتر ہے۔
15 ستمبر کو پوری دنیا میں یوم جمہوریت منایا جاتا ہے۔ جن ممالک میں جمہوریت اپنی اصل روح کے مطابق رائج ہے ان کو یہ دن منانے کا پورا حق ہے۔ ہمارے ہاں تو جمہوریت کے نام پر کرپشن، لوٹ مار، بدمعاشی، غنڈہ گردی اور اقرباءپروری ہوتی ہے۔ 15 ستمبر منانے کا اگر ہم جیسے ”جمہوری معاشروں“ کو زیادہ شوق ہے تو اس دن کا کوئی اور نام رکھ لیں۔