ِٰ"INNOCENCE OF MUSLIMS"

اس بدنام زمانہ اور دل آزار فلم کا پہلا نام صحراائی جنگجو یعنی ©©" Desert Warriors"رکھا گیاتھا۔ پھر اسے اسامہ بن لادن کی معصومیت کا نام دیا گیااور جب اس فلم کو” الناس“ نامی مصری ٹیلی ویژن چینل پر ٹریلرز کی صورت میں چلایا گیا تو تب اسکا نام مسلمانوں کی معصومیت یعنی INNOCENCE OF MUSLIMS سامنے آیا۔ ایک اسرائیلی پراپرٹی ڈیلر کے سرمائے سے بننے والی اس فلم کا موضوع محسن انسانیت پیغمبر آخرالزما ن حضرت محمدﷺ کی ذات بابرکت پر بے بُنیاد منفی انداز میں مرکوز رکھا گیاہے۔ اس فلم کا مقصد وہی ہے جو کچھ عرصہ پہلے ویرٹ گلڈر نامی ڈچ سینٹرکی جانب سے بنائی گئی ایک اور دل آزار فلم” فتنہ“ کے جواب میں میں نے بین الاقوامی تحقیق اور شخصیات کے تعاون سے فلم” سلام “بنائی جسے اب یو ٹیوب پر جاری کر دیاگیا ہے اور اسے یو ٹیوب پر دیکھا جاسکتا ہے ان سطور کے ذریعے پاکستان کے سارے پرائیویٹ چینلز کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ انگریزی میں بنائی گئی فلم سلام کو بلامعا ضہ چلائیں۔ اس سلسلے میں ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے حاضر ہوں۔
مسلمانوں کی معصومیت نامی مذکورہ بالا فلم کے ٹریلر پرائیویٹ مصری ٹی وی سٹیشن” الناس“ پر چلنے کے ساتھ ہی اسکا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر سام باسائل زِیرزمین چلاگیا۔ الناس ٹیلی ویژن پر چلنے والے ٹریلر سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ فلم عربی زبان میں ڈب کی گئی ہے اور بنیادی طور پر فلم انگریزی میں بنائی گئی تھی فلم INNOCENCE OF MUSLIMSکے خلاف مصر سے شروع ہونے والے مظاہرے فوری طور پر لیبیا اور افغانستان تک پہنچ چکے ہیںاور ان مظاہروں کے دوران لیبیا کے تاریخی شہر بن غازی جہاں کچھ دن پہلے تک امریکہ کے اہلکار لیبیائی باشندوں کے نجات دہندہ بن کر گھومتے تھے ِاس بن غازی میں جہاں پچھلے سال لیبیا کے سابق صدر معمر القذافی کےخلاف خون آشام تحریک کا آغاز ہوا تھا اسی شہر میں لیبیا کیلئے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نئے سفیر کرسٹوفن سٹوفرکوامریکی سفارتخانے کے دیگر تین اہلکاروں کے ساتھ جان سے مار دیا گیاہے۔ یہ سطور لکھتے وقت بھی عرب ٹی وی چینلوں پر مصر کے اندر مظاہرین کی جانب
سے امریکی سفارتخانے کے گھیراﺅ اور افغانستان میں ایک امریکی ائیربیس کے گھیراﺅ کی خبریں نشر ہورہی ہیں اس انتہائی اشتعال انگیز دل آزار اور متنازعہ فلم کے اداکاروں نے سی این این کو دیئے گئے انٹرویوز مین کچھ دیر قبل ہی یہ ہولناک انکشاف کیا ہے کہ جس موضوع پر انہوں نے انگریزی زبان میں مکالمے بولے تھے جب فلم کو عربی زبان میں ڈب کیا گیا تھا تو ان مکالموں کو توہین آمیز اور متنازعہ بنادیا گیا ۔ اس شرمناک فلم کی 80% کاسٹ اور عملے کے ارکان نے بالکل یہی اور ایک جیساہی موقف اپنایاہے اور اسے فلمی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ قراردیا ۔فلم کے اس عملے نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ فلم 2000 سال پہلے کے عام صحرائی ایک مصری کرادار پر شُوٹ کی گئی تھی ۔ افغانستان کی حکومت نے یہ شرمناک فلم یو ٹیوب پر آتے ہی اپنے ملک کی حد تک یو ٹیوب کو فوری طور پر بند کردیا ہے اور مصر اور لیبیا میں بھی یو ٹیوب کی سروس معطل ہونے کی اطلاعات بین الاقوامی میڈیا پر آرہی ہیں۔
تازہ ترین معلومات کے مطابق فلم بنائے جانے کا لائنسنس لینے کیلئے یہ جُھوٹ بھی گھڑا گیا کہ اُسکو ہالی ووڈ میں فلم میکنگ کا تجربہ حاصل ہے ۔ جبکہ اب سامنے آنے والی تفصیلات اور اطلاعات کے مطابق بدنام زمانہ سام باسائل ایک اسرائیلی پراپرٹی ڈیلر نکلا ۔ در حقیقت ایک اسرائیلی پراپرٹی ڈیلر کی طرف سے بنائی گئی اس فلم کی بُنیاد ہی جُھوٹ ،فراڈ ،مکاری اور فریب کاری پر رکھی گئی ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا کی وساطت سے یہ اطلاع بھی منظر عام پر آئی ہے کہ اس فلم کو بنانے کیلئے آج کل امریکہ میں کام کرنےوالے مُتعصب گوروں کی ایک شدت پسند تنظیم نے بھی خاصا سرمایہ فراہم کیا ہے ۔ یہ گورے ایڈلف ہٹلر کی تخلیق کردہ جرمن نازی ازم سے ملتی جلتی سوچ رکھتے ہیں ۔ جسکے مطابق امریکہ صرف سفید فام گوروں کا ملک ہے جسمیں رنگ دار کالے اور پیلے چمڑے رکھنے والے لوگوں کیلئے رہائش اور بُود و باش کی کوئی گُنجائش نہیں ہے۔امریکہ کی اس شدت پسند گوری بالادستی کا پر چار کرنے والی اس تنظیم کے لیڈر اور راہنما کھل کر تہذیبوں کے تصادم کے ذریعے تیسری عالمی جنگ کا بھی پرچار کرتے ہیں ۔ انکے نقطہ نظر کے مطابق امریکہ اور مغرب کے تمام مسائل کا حل تہذیبوں کے حتمی تصادم ہوجانے میں مُضمر ہے ۔ ہمیں یادر کھنا ہوگا کہ دُنیا میں تہذیبوں کے تصادم سے مراد مختلف خطوں ، ملکوں اور بر اعظموں میں بسنے والے مسلمان ممالک اور مسلم اقلیتوں کے ساتھ دوسری تمام تہذیبوں کا تصادم سمجھا جارہا ہے ۔
اس سوچ کے پر چار نے برما میں زبردستی ضم کی گئی ریاست اراکان اور مصر کے عیسائی اکثریتی علاقوں میں کھل کر سامنے آنا شروع کردیا ہے ۔ دوسری جانب مسلم دُنیا مین مختلف ناموں برانڈز اور حوالوں سے عشروں اور صدیوں تک مسلط رہنے والی ڈکٹیٹر شپ نے افریقہ اور ایشیاءمیں پہلی دو عیسائی ریاستوں کو جنم دیا ہے ۔ جنہیں مسلم دُنیا کے دو اہم ممالک کا سینہ چاک کرکے بنایا گیا ہے ۔ ان میں ایک انڈونیشیا کی کوکھ سے ایسٹ تیمور اور دوسری ریاست سوڈان کے بطن سے نکلی ہے ۔
میں دُنیا بھر کی مسلم کیمونٹی کی جانب سے INNOCENCE OF MUSLIMS نامی گُمراہ کُن اشتعال انگیز ، بدنام زمانہ اور دل آزار فلم کے ذریعے نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں اس گستاخی کی شدید مذمت کرتا ہوں اور توقع کرتا ہوں کہ مسلمان اس فلم کو محض ایک ویڈیو کے تناظر میں نہیں بلکہ تہذیبوں کے تصادم کا پر چار ،پروپیگنڈہ اور منصوبہ بندی کرنے والے ماضی حال اور عملی کردار کے آئینے میں دیکھیں گے ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد عربی ﷺ سے اپنے عظیم اور آخری پیغام قرآن حکیم میں یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کا ذکر ہمیشہ زمین وآسمانوں اور تمام جہانوں میں بلند اور سربلند رہے گا ۔ ایسی ناپاک اور شرمناک حرکتوں کے ذریعے جو پیغام دیا جاتا ہے اُسے ہمیں چیلنج اور سعادت سمجھ کر قبول کرنا چاہیے دُنیا کی ساری طاقتیں ملکر بھی ”وَرَفَعنَا لکَ ذکرَک“کے خدائی وعدے کا سامنا نہیں کر سکتی لیکن ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر مسلمان حُکومتوں کا امتحان ہے کہ کیا وہ اس تاریخی کراس روڈ پر اکٹھے ہوکر اقوام متحدہ کے فورم سے دُنیا کی عظیم مذہبی ہستیوں کےخلاف اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بننے والی بے لگام فلموں ،خاکوں اور کارٹونوں پر پابندی لگا سکتی ہیں یا نہیں ؟
آگ ہے ، اولاد ابراہیمؑ ہے، نمرود ہے
کیا کسی کوپھر کسی کا امتحاں مقصود ہے