ڈی آئی جیز بھتہ خوری پر قابو پانے کا سرٹیفکیٹ جمع کرائیں‘ عدالتیں مقدمات جلد نمٹائیں‘ کراچی: پولیس روزانہ کارکردگی رپورٹ پیش کرے: سپریم کورٹ
کراچی (سالک مجید) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ملک میں آئین کی حکمرانی اور جمہوریت کے علاوہ اور کوئی چیز قابل قبول نہیں‘ عدلیہ نے آمریت کو دفن کر دیا‘ اب عدالتوں کو لپیٹنے کی کوشش کی گئی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ بھارت میں غیر آئینی اقدام پر استعفے دے دئیے گئے‘ حکومت اس سے سبق لے۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے کراچی میں بدامنی کی صورتحال پر ازخود نوٹس کے تحت مقدمے کی سماعت مکمل کرتے ہوئے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے اور عبوری حکم جاری کر دیا‘ سپریم کورٹ نے مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو ہدایت کی ہے کہ پولیس روزانہ کی بنیاد پر کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی اور جرائم کی صورتحال سے تحریری طور پر سپریم کورٹ کو رپورٹ پیش کرتی رہے۔ کراچی کے چاروں ڈی آئی جیز کو ہدایت کی گئی ہے کہ بھتہ خوری پر قابو پانے کے حوالے سے سرٹیفکیٹ جمع کرائیں۔ ماتحت عدالتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے مقدمات کو تیزی سے نمٹائیں۔ عدالتیں ان مقدمات کی روزانہ سماعت کریں۔ وفاق کے وکیل بابر اعوان نے اپنے دلائل مکمل کر لئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی کئی غیرآئینی اقدامات کو دفن کردیا ہے کئی بار آگاہ کرچکے ہیں کہ اب ہر قسم کے غیر آئینی عمل بند کر دیئے جائیں صرف آئینی اور قانونی اقدامات اور جمہوریت ہی قابل قبول ہیں اب کوئی جج غیر آئینی قدم اٹھا سکتا ہے نہ ہی کوئی آمر آسکتا ہے۔ کراچی میں پولیس اہلکار مارے جاتے ہیں حکومت کچھ نہیں کرتی حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں حکومت کھالوں کے مسئلے کا کیا کرے گی یہ مسئلہ بھی آنے وا لا ہے اس کا بندوبست کریں اس سلسلے میں قانون سازی کریں جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا پرچی آتی ہے کہ جانور کی کھال دو گے یا اپنی کھال۔ ایک موقع پر جسٹس سرمد جلال عثمانی نے بابر اعوان سے کہا امریکہ میں اسلحہ کا لائسنس نہیں لینا پڑتا وہاں ہر شخص سامنے والے کو جواب دے سکتا ہے کیوں نہ یہ قانون پاکستان میں بھی رائج کردیا جائے بابر اعوان نے کہا بڑے احترام سے کہتا ہوں امریکہ میرے لئے ماڈل نہیں ہے۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیراعظم لیاقت علی خان صرف شہید ہی نہیں ہمارے محسن اور رفیق تھے عدالت کسی کو ملک کے محسنوں کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ بابر اعوان نے کہا تھا سابق وزیراعظم لیاقت علی خان کے خلاف باتیں کی گئیں اور انہیں ڈکٹیٹر کہا گیا میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ وہ شہید تھے۔ دلائل کے دوران بابر اعوان نے کہا اتحادی ناراض ہو جاتے ہیں چیف جسٹس نے کہا اتحادیوں کی ناراضگی سے عدالت کا کوئی تعلق نہیں آپ سیاسی باتیں چھوڑیں آئین اور قانون کی بات کریں مسئلے کا حل بتائیں حل آئین میں موجود ہے اسے تلاش کریں بابر اعوان نے کہا ہم ڈائیلاگ کر رہے ہیں آئین بھی ڈائیلاگ کا کہتا ہے چیف جسٹس نے کہا یہ مجرموں کا معاملہ ہے اس میں ڈائیلاگ کی کوئی گنجائش نہیں آئین اور قانون کے مطابق کارروائی کی بات کریں۔ ایڈیشنل آئی جی مسعود مرزا نے بتایا بھتہ خوری میں نمایاں کمی آ گئی ہے ۔ کل بھی دو بھتہ خور پکڑے ہیں جنہوں نے دو افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ اے پی پی‘ اے این این کے مطابق بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ حکومت عدالتی کارروائی معطل کر سکتی ہے اس کے لئے آئین کا آرٹیکل 234 صدر کو ایمرجنسی نافذ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مسئلے کا حل آئین کے اندر نکالیں‘ حالات خراب ہیں تمام اقدامات کے باوجود صورتحال کو نہیں سنبھالا جا سکا۔ عدالتوں کو لپیٹنے کی کوشش کی گئی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ بابر اعوان نے کہا کہ حکومت ایک لمحے کے لئے بھی عدالتوں کے اختیارات معطل نہیں کرے گی‘ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں پولیس والوں کو مارا جاتا ہے‘ حکومت کچھ نہیں کرتی۔ اب تک 1310 افراد مارے جا چکے ہیں مگر حکومت کہتی ہے ہماری ذمہ داری نہیں۔