2023 ء آنے کو ہے
ایک لمحہ کیلئے تصور کیجئے کہ 2023 ء آگیا۔ موجودہ حکومت اپنے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو جاتی ہے ۔ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی اب یہ مؤقف پیش نہیں کر سکتی کہ وہ لوٹ مار کرکے کھا گئے۔ انہوں نے تمہیں بیوقوف بنایا وغیرہ وغیرہ اب تو اپنی کارکردگی بتانا پڑے گی کون سے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچائے گئے اور کون سے شروع کیے گئے جن کی تکمیل کے لیے عوام انہیں دوبارہ منتخب کرے سب سے بڑا سوالیہ نشان تو یہ ہو گا کہ اپنے ووٹر کو کیسے مطمئن کیا جائے جن کی اکثریت انہی دونوں پارٹیوں سے آئی ہے ان کے پاس واپس جانے کا بھی کوئی راستہ نہیں چونکہ وہ فرنٹ فٹ پر کھیلے ہیں اور کشتیاں جلا کر آئیں ہیں۔ان دونوں پارٹیوں کے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ آ چکا ہے اسی لیے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی چاہتے تھے کہ آپ اپنی مدت پوری کریں یعنی ان کو نکالنے کا سبب بھی آپ ہی تھے اور اب اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آگئے تو اس کی وجہ بھی آپ ہی ہونگے۔ پوری ٹیم میں سارے کھلاڑی ہی کھیلتے ہیں مگر جو اچھا کھیلتا ہے دنیا اسے ہی تسلیم کرتی اور سراہتی ہے۔ وہ ایک دو ہی ہوتے ہیں لہذا آپ پر نہ تو کوئی کرپشن کا الزام ہے نہ ہی اقربا پروری کا نہ ہی آپ نے بیرون ملک جائیدادیں بنائی ہیں مگر سیاست کا گراؤنڈ اور کھلاڑی ذرا مختلف ہوتے ہیں۔
برصغیر میں تو ن لیگ پیپلز پارٹی کے خلاف، اور پیپلز پارٹی ن لیگ کے خلاف آخری حدود بھی کراس کر چکے تھے اور وہ دونوں کم از کم آپ کی مخالفت کے نقطے پر یکجان ہو کر بولیں گے۔ ابھی بھی وقت ہے خان صاحب کوئی آخری پتہ کھیلیں اپنی ٹیم پر غور کریں کہ کیا وجہ ہے یہ ڈلیور نہ کرسکے یا ڈلیور کرنے میں رکاوٹوں کی عوام کو آگاہی ہونی چاہئے۔اگر آج نہ دی گئی تو 2023ء میں کیسے ہوگی ؟ سوشل میڈیا نے ہر کسی کو باخبر کردیا آج بھی ہمارے دیہات میں کیبل نہیں ہے مگر ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل آچکا ہے ہر پارٹی نے اپنے سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں باقاعدہ تنخواہیں دی جاتی ہیں جو 24 گھنٹے ایک دوسرے کے خلاف مہم جوئی کرتے نظر آتے ہیں ۔اخلاقیات کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں مجال ہے کوئی اس طرف توجہ دے ۔پچھلے وقتوں میں تھڑوں پر بیٹھ کر سیاسی گفتگو ہوتی تھی ایک دوسرے کا احترام ضرور ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تھا۔مگر آج ملک کا کوئی بھی ادارہ سوشل میڈیا سے محفوظ نہیں، جس کا جو دل چاہتا ہے لکھ رہا ہے بول رہا ہے دکھا رہا ہے۔
آج یہ صورتحال ہے تو 2023 ء میں کیسی ہو گی۔ عام آدمی کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے بجلی کے بحران کے حل کا کیا۔ بنا پولیس پٹوار اداروں میں اصلاحات کا کیا بنا ؟ ہم آپ سے ابھی بھی انقلابی فیصلوں کی متمنی ہیں ۔ آج عوام کے کیا مسائل ہیں آپ سے بہتر کون جانتا ہے بلاشبہ راتوں رات حل نہیں ہو سکتے مگر کوشش کی سمت تو نظر آئے یہ برصغیر کی سیاست کا مزاج ہے کہ دشمن یا حریف کی کامیابیوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا ان میں نقائص ڈھونڈے جاتے ہیں مگر آپ کے ووٹر عوام آپ کی مثبت کاوشوں کو نہ صرف تسلیم کریں گے بلکہ سراہیں گے بھی ۔ آئندہ الیکشن میں آپ کو کے پی کے ، پنجاب اور مرکز کو ہر حال میں دوبارہ اقتدار کیلئے حاصل کرنا ہو گا ۔ پنجاب میں گلیوں اور سڑکوں کا برا حال ہے ۔ترقیاتی کام جمود کا شکار ہو چکے ہیں امن و امان کی بدترین صورتحال ہے۔ نواز شریف اور زرداری کی پارٹیاں بھی آخر میں یہی سوچتی تھی کہ چلو اقتدار تو نہ ملے مگر ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار تو مل ہی جائے گا۔ دیکھیں گے پھر یہ حکومت کیسے کام کرتی ہے؟