نابینائوں کا عالمی دن
زندگی ایک مسلسل امتحان اور چیلنج ہے ۔ ہم منشائے الٰہی کے سامنے اُف تک نہیں کر سکتے۔ بصارت سے محروم لوگ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً تیرہ لاکھ نابینا زندگی کے مختلف شعبہ جات موجود ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے نابینا افراد کے ساتھ یکجہتی کے لیے 15اکتوبر کو عالمی سطح پر’’یوم سفید چھڑی‘‘منانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ 1965ء سے آج تک نابینائوں کے اس دن پر متعدد تقریبات اور ریلیوں کا اہتمام کیا جاتاہے۔ تقریبات میں نابینائوں کے مسائل حل کرنے کے وعدے بھی کیے جاتے ہیں لیکن اس دن کے بعد برسرِ اقتدار اِن کے مسائل سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ یوں تو زندگی ٹھوکروں‘ مسائل‘ مصائب و آلام اور چیلنجز کا نام ہے لیکن وہ لوگ جو زندگی کی ناہمواریوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو حالات سے لڑنے کا عزم رکھتے ہوں‘ ان کے لیے سفید چھڑی عصائے موسوی کی طرح ہے جو نابینا افراد کو منزل تو نہیں نشان منزل کا پتہ دیتی ہے۔
سفید چھڑی نابینا افراد کا استحقاق ہے کہ بینا افراد سفید چھڑی کے حامل شخص کو پہلے راستہ دیں تاکہ وہ بصارت کی محرومی کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکے۔ ٹریفک کے بے ہنگم شور اور گاڑیوں کے طوفانی بہائو میں سفید چھڑی تقاضا کرتی ہے اس کا احترام کیا جائے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سفید چھڑی امن، دوستی ، اخوت و مروت اور بھائی چارے کی علامت تصورکی جاتی ہے لیکن افسوس ترقی پذیر ممالک میں سفید چھڑی کو ابھی تک وہ اہمیت حاصل نہ ہو سکی جس کی وہ حق دار ہے۔آنکھیں بڑی نعمت ہیں۔ فطرت کا ظاہر آنکھوں کی ذریعے ہی انسان پہچان سکتا ہے۔ آنکھیں زندگی کو حرارت‘ حیا‘بقا اور دوام عطا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مالک کل ہے وہ جسے چاہے جو عطا کرے اور جسے چاہے محروم رکھے۔
بصارت سے محرومی انسان کے لیے ایک چیلنج یا امتحان ہے۔ دنیا بھر کے لاکھوں نابینا لوگ زندگی کی تلخیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کئی بینا افراد سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ انھوں نے گردش ایام کا زندہ دلی سے مقابلہ کر کے حالات کے تھپیڑوں کا اپنی خداداد صلاحیتوں سے جواب دے کر مایوسی کو شکست فاش دی ہے۔
ہیلن کیلر‘ مٹسن‘ ورجل اور دنیا کے کئی افراد کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنھوں نے آنکھوں کی روشنی ختم ہو جانے کے باوجود من کی روشنی سے وہ کچھ کر دکھایا جو الیکٹرونکس دور کی بے پناہ روشنیاں نہ کر سکیں۔پاکستان میں بہت سے دفاتر ایسے ہیں جہاں نابینا افراد اپنے فرائضِ منصبی ادا کر رہے ہیں۔ تعلیمی میدان میں ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں سمیٹنے والے کئی نابینا ، بینا حضرات کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھی بصارت سے محروم بہت سے احباب اپنی بصیرت سے حیران کن خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پی سی ایس اور سی ایس ایس امتحانات میں بھی نابینائوں نے اپنی مخفی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے ۔ گزشتہ سال ایک نابینا مسندِ انصاف پر بھی متمکن ہوچکا ہے ۔ شعر و سخن کی دنیا میں بھی نابینا اپنے حسنِ تخیل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ادبی دنیا میں نابینائوں کی بہت سی کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔
زندگی بذات خود ایک چیلنج ہے۔ نابینا افراد نے اس چیلنج کو قبول کر رکھا ہے ۔ پاکستان کے تقریباً 13/لاکھ نابینا افراد ہماری خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ بہت سے نابینا افرادہمیں مساجد کی سیڑھیوں‘ بسوں‘ گاڑیوں ، اسپتالوں ، ریلوے اسٹیشنوں اور بازاروں میں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں‘ ہم انہیں خیرات دینے کو تیار ہو جاتے ہیں لیکن اُن کے ہاتھ سے کشکول چھین کر انہیں تعلیم اور ہنر دینے کی کوشش نہیں کرتے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ان نابینا افراد کو معاشرہ پر بوجھ بنانے کے بجائے انھیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع فراہم کریں۔
انہیں دستکاری سکھائی جائے‘ تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کیا جائے‘ شعور کی دولت سے مالا مال کیا جائے‘ صلاحیتوں کے اعتبار سے نابینا افراد، بینا حضرات سے کسی طرح کم تر نہیں ہیں۔نابینا افراد کو گداگری سے بچانا ہر بینا فرد کا اوّلین فرض ہے۔ حکومت پاکستان نے کئی منصوبہ جات کا اعلان کیا لیکن وہ اعلانات سیاسی نعروں کی طرح ثابت ہوئے‘ سپیشل ایجوکیشن کا محکمہ بینا افراد کے پاس ہیں۔ کاش اس میں کچھ نابینا افراد بھی شامل کر لیے جائیں جو مسائل کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ حکومت کے زیر انتظام نابینائوں کے جتنے تعلیمی ادارے ہیں انھیں فعال بنایا جائے۔ نابینا افراد کو صلاحیتوں کی بنا پر اعزازت سے نوازا جائے۔پاکستانی نابینائوں نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا۔ نابینا کرکٹ ٹیم کی کارگزاری سے بینا کرکٹ ٹیم کو سبق سیکھنا چاہیے ۔ نابینائوں کے لیے تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں نیز طریقہ امتحان کو آسان بنا کر ان کے لیے تعلیم عام کرنے کا اہتمام ہو۔ سرکاری ملازمتوں میں نابینا افراد کے لیے ایک فیصد کوٹہ رکھا گیا تھا جس پر عمل نہیں کیا جاتا۔15/ اکتوبر ہمارے ذہنوں پر ایک دستک ہے کہ ہم نے اس پر عمل نہیں کیا۔
15اکتوبر کے عالمی دن کا تقاضا ہے کہ ہماری پولیس نابینا افراد کے ہاتھ میں سفید چھڑی کا احترام کرے اور جو ڈرائیور صاحبان ابھی تک سفید چھڑی کے بارے میں نہیں جانتے انہیں اس کی تربیت دیں۔ میری ناقص رائے میں تو اب بیناحضرات کو بھی سفید چھڑی کا سہارا لینا چاہیے کیوںکہ آئے دن کے حادثات اور جانی و مالی نقصان سے اندازہ ہو رہاہے کہ قوم کے بیشتر افراد کی بینائی کمزور ہو چکی ہے اور وہ ظاہری روشنی پر سفر کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ بینائی کے ساتھ ساتھ من کی رعنائی بھی بہت ضروری ہے۔ من حیث القوم ہمارے اندر کی پولیس مر گئی ہے۔ خوف الہٰی جاتا رہا اس لیے نابینا تو کجا ہم بینا افراد کی بھی قدر نہیں کرتے‘ دن منائے جاتے ہیں لیکن اگلے ہی روز اُن نعروں کے خلاف کام ہوتا ہے جو عالمی دنوں پر لگائے جاتے ہیں۔ 15 اکتوبر تجدید عہد کا دن ہے لیکن تجدید تو وہ لوگ کر سکتے ہیں جنھوں نے عہد کیا ہو‘ جن لوگوں نے نابینا افراد سے محبت‘ یک جہتی‘ اخوت‘ پیار‘ بھائی چارے‘ ہم آہنگی اور انسان دوستی کا عہد نہیں کیا وہ آج عہدکریں کہ اپنا نابینا بھائیوں کے ساتھ حق دوستی نبھائیں گے۔ اندھیروں میں پھرنے والے اپنے ساتھیوں کے دلوں میں محبت کی شمع روشن کریں گے۔ آئیے اس عہد کے لیے پہل کریں۔
اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا؟