عثمان بھائی چل بسے
پاکستان میں بننے والے سیاسی اتحادوں کی مختصر تاریخ لکھتے لکھتے ایم آر ڈی کی داستان ختم ہوئی تو اسکے بعد بننے والے دواتحادوں ،اے آر ڈی اور پی ڈی ایم کا المیہ لکھنا باقی تھا کہ گذشتہ ہفتے کے روزصبح میرے سب سے بڑے بھائی عثمان کھوکھر دارفانی سے کوچ کرگئے۔ اب لکھنے کوکچھ باقی نہ رہا۔انکی میت کے سرہانے بیٹھ کربچپن سے لے کر آج تک کے ایک ایک واقعہ کی فلم دیکھتا رہا۔سب سے پہلا جو نقش ابھراوہ سکول کے زمانے کا تھا۔بھائی عثمان شام کو جب گھر آتے تو جوکچھ کھارہے ہوتے‘ اسے میرے حوالے کردیتے ۔سب سے بڑابھائی باپ کے بعد ایک طرح کا جانشین ہوتا ہے۔اسکی شفقت بھی برادرانہ کی بجائے پدری ہوجاتی ہے۔ اسے قدم قدم پر باپ کا کرداربھی اداکرنا پڑتا ہے۔بھائی عثمان نے بھی اپنی بہت سی خواہشات ہم چھوٹے بھائیوں پر قربان کردی تھیں۔دنیا کی لالچ سے بے نیاز بڑی درویشانہ زندگی بسرکی۔حس مزاح توکمال کی تھی۔ترکی بہ ترکی جواب تو نہ دیتے مگرنکتہ رسی اور بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے تو مخاطب کو پسائی اختیار کرناپڑتی۔طبیعت میں بڑی شگفتگی اور متانت تھی ۔ سادہ لباس ،سادہ طبیعت اورسادہ کھانا زندگی بھر ان کا شعار رہا۔اباجی کو اگر گوشت کھانے کاشوق تھا توبڑے بھائی کومٹھائی کا۔مجلسی زندگی سے تقریبادور ہی رہے۔ ساری عمر اس مقولے پر عمل کیا کہ "اپنے کام سے کام رکھو"درمیانی قامت ،درمیانہ جسم ،درمیانی چال اور درمیانہ رویہ مگر یہ درمیانہ پن بھی انہیں ممتازکرتا ۔عثمان بھائی پورے خاندان میں"وڈابھائ"(بڑابھائی )کے نام سے جانے جاتے کیونکہ وہ ہم سات بھائیوں میں سے سب سے بڑے تھے ۔ان سے چھوٹے بھائی لقمان کو اہل خاندان ـ"نکابھائ"(چھوٹا بھائی )کہتے (اللہ ان کی عمر دراز کرے)عثمان بھائی بچوں کو سمجھانے کی خاطر ایک خاص انداز سے دانت دباتے اور اپنے غصے کا اظہار کرتے پنجابی زبان میں اس عمل کو "کچیچیاں وٹنا"کہتے ہیں اور جب وہ کچیچیاں کھینچتے تو اس کے ساتھ ہی کوئی ایسی بات کہہ دیتے کہ ماحول زعفران زار بن جاتا۔انکی میت کے سرہانے بیٹھے وہ منظر بھی یاد آجاتا جب ہم اماں جی کے پاس چولہے کے قریب سب بھائی اکٹھے بیٹھ کرکھانا کھاتے۔کسی کو پانی پینے کی حاجت ہوتی توسامنے پڑاگلاس اٹھانے کی بجائے آسمان سرپر اٹھالیتا کہ مجھے پانی دو۔ایسے میں اباجی کی موجودگی کا احساس ہمیں راہ راست پر لاتا اور اگر اباجی نہ ہوتے پھر"بھاء وڈا"کی "کچیچیاں"ظاہر ہوتیں ۔ہمار ایک آٹوورکشاپ تھا گوجرانوالہ کے معروف شیرانوالہ باغ کے عقب میں۔اباجی کے پاس شروع میں جو گاڑی تھی اسے ہینڈل سے سٹارٹ کرنا پڑتاتھا۔ہینڈل سے لے کر"سلف سٹارٹ"تک کے سفر میں بہت سی گاڑیاں انکی ہمسفررہیں ۔انکی میت کے کفن کو ایک طرف سے ڈھانپتے ہوئے یادآیا کہ اپنی شادی کے بعد بھی انہوں نے اپنے بھائیوں کو ہمیشہ "وڈے بھائ" کا پیاردیا۔بیٹیاں زندگی کاسفر لمحہ لمحہ طے کرکے اپنے اپنے گھروں میں آبادہوگئیں۔بیٹے بھی جوان ہوگئے مگر بھائی عثمان کادل توجیسے ہماری الفتوں سے لبریز ترتھا۔اپنے اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ ہمارے ادب واحترام کا پاس رکھنے کا کہا سمجھانے کے انداز میں اور گاہے "کچیچیاں وٹ" کرانکے پیٹ میں حرام کا ایک لقمہ توکیا چنے کادانہ بھی نہیں گیا تھا۔حلال کی کمائی رنگ تو لاتی ہے۔ہم سات بھائیوں کو اکٹھا اور متحد دیکھ کرلوگ کچھ حسد اور کچھ رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ حیران بھی ہوتے ہوں گے مگر انہیں کیا علم کہ ہمارے اباجی نے ہمیں ایک نصیحت بار بار کی کہ"نہ کسی کا حق کھائو اور نہ کھانے دو"بھائی عثمان "قلت کلام"خلت منام اور قلت کا طعام "کے قائل تھے۔میت کا چہرہ پیار سے صاف کرتے ہوئے میرے دل پہ کیاکیا گذری ہوگی، ہر صاحب دل اندازہ کرسکتا ہے ۔پھر وہ لمحہ بھی یاد آیا جب گذشتہ مہینوں میرے ہاں ایک دعوت پر میری طرح شوگر اور بلڈ پریشر کے ستائے لوگ بھی موجود تھے کہ کسی نے سب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ بھائی عثمان کو دیکھو عمر میں سب سے بڑاہوتے ہوئے بھی انہیں نہ بلڈ پریشر کا عارضہ ہے نہ شوگر نام کی کسی بلا سے آشنا ہیں اور دل تو ماشاء اللہ جسم میں ایسے دھڑکتا ہے جیسے لڑکپن میں تھا۔پھر ایک ماہ پہلے طبیعت ذراخراب ہوئی تو ڈاکٹر نے بتایا کہ کینسر نے حملہ کردیا ہے ۔ان کے بیٹے فرخ عثمان اور عمر عثمان انہیں لے کرشوکت خانم ہسپتال گے تومعلوم ہواکہ آخری سٹیج پر ہیں ۔ایک ہسپتال سے دوسرے اورکبھی تیسرے چوتھے ہسپتال تک گئے۔سوات کی وادیوں سے بھی آگے کسی دور داراز پہاڑی چٹانوں پرکسی اللہ والے سے دوائی لے کر آئے مگر شائد وہ وقت آن پہنچا تھ اجس کا شائد خود بھائی عثمان کوبھی انتظار تھا ۔گذشتہ ہفتے کے روز صبح پانچ بجے انہوں نے سب بچوں،بھائیوں اور احباب کو تڑپتا چھوڑکر اس جہان رنگ ویو پر ایک الوداعی نظر ڈالی اور یہ دنیا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ دی۔اسی روز شام کو شہر کے بڑے قبرستان میں جنازہ پڑھاگیا اور انکے بیٹیوں نے اپنے ہاتھوں سے انہیں لحدمیں تارا۔پچھاڑیں کھا کر گرنے والے تھے کہ خودگرنے والوں نے سنبھالا۔ ایک زندگی تمام ہوئی ایک باب ختم ہوا ۔اب نہ عثمان بھائی رہے نہ "بھاء وڈا"۔قبرستان میں ایک اور قبر کا اضافہ ہوا اور ہمارے گھر انے سے ایک جہاں کی کمی ۔ بس نام رہے گااللہ کا۔
پس تحریر: احباب سے گزارش ہے کہ بھائی عثمان کیلئے مغفرت کی دعافرمائیں۔