تمتماتے چہرے اور ہاتھوں سے بجتی تالیاں۔ وقفے وقفے سے سیٹیاں بھی جوش اُبھار رہی تھیں۔ لوگ خوش کیو ں نہ ہوتے۔ وہ اپنے ’’پسندیدہ ہیرو‘‘ کے ہاتھوں ’’وِلن‘‘ کی پٹائی کے مناظر جو دیکھ رہے تھے۔
دوسرا سین …
ہال میں یکدم خاموشی چھا گئی۔ دم سادھے لوگ۔ یوں جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ مسکراتے چہرے رنجیدہ۔ تالیاں بجاتے ہاتھ ساکت۔ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ ’’ہیرو‘‘ کو ’’وِلن‘‘ سے مار پڑ رہی تھی۔
فلم انگلش ہو یا اُردو۔ شائقین ہر حال میں ہیرو کو فتح مند دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ہوتے دونوں ہی انسان ہیں مگر مزاج۔ عادات۔ کردار۔ فرق کا تعین کرتا ہے۔ ہیرو چاہے بھدّا۔ سانولا ہو۔ ’’ہیرو‘‘ ہی رہتا ہے۔ وکٹری سٹینڈ کا مقدر ہمیشہ کے لیے حاصل کیے ہوئے اور ’’وِلن‘‘ کتنا ہی جاذبِ نظر۔ اُونچا لمبا۔ دلکش سراپا لیے ہوئے ہو۔ لوگوں کی پسندیدگی سے محروم ہی رہتا ہے۔ اتنا ہی فرق ’’دیوتا اور مسیحا‘‘ میں ہے۔ بہت کم خوش نصیب بیک وقت دونوں خصوصیات کے حامل نظر آئیں گے۔ قائداعظم محمد علی جناح۔ علامہ اقبال۔ نیلسن منڈیلا۔ مہاتیرمحمد۔ شاہ فیصل۔حمید نظامی ۔مجید نظامی ما ضی بعید اور حال کے مسیحا ہیں۔
عصر حاضر کی سیاست و قیادت میں اکثریت ’’دیوتا‘‘ صورت نظر آئینگے۔ بزعم خود بلند ٹیلوں پر خود کی عبادت۔ سیادت۔ پرستش میں مگن۔ اپنے آگے خود کے ہاتھ باندھے ہوئے۔ اتنے مقدس کہ کہیں سے ’’چمک‘‘ درآمد ہو رہی ہے۔ کسی کی لانچوں سے قارون کا خزانہ۔ کوئی روزگار کے نام پر مرید خرید کر ’’ظالم سمندر‘‘ کی بے رحم موجوں کے حوالے کر دیتا ہے اور کوئی صرف اطاعت گزاری واسطے ’’کمّی۔ کمین ‘‘کو بڑی کرسی پر بٹھا کر توپ بنا کر غریب عوام کیلئے سسکیاں بھر رہا ہے۔ کسی مقام پر صفحات کے صفحات ’’دیوتا‘‘ کی مسیحائی کا یقین دلانے میں مصروف ہیں اور اخبار کی بقیہ جگہ پر تنگدستی۔ غربت سے پھندہ لینے والوں کی خبریں ’’ان داتا‘‘ کی مسیحائی پر مہر تصدیق ثبت کرتی نظر آتی ہیں۔ یہی دیوتا جب ’’اختیار‘‘ کی گدی سنبھالتا ہے تو ’’وِلن‘‘ کا روپ دھار لیتا ہے اور گدی سے اُترنے والا ’’ہیرو‘‘ کے قالب میں ڈھل جاتا ہے۔ رُبع صدی سے زائد پاکستانی سینما میںبلاک بسٹر مناتی فلم۔’’ ہیرو اور ولن‘‘ واحد فلم ہے جو آج تک اُتر نہیں پائی۔ وہی کردار۔ روپ۔ ڈائیلاگ بہروپ۔ مناظر ایک سے۔ ہاں نام ضرور بدل جاتے ہیں۔ تھکاوٹ اُتارنے کیلئے کمائی ہوئی دولت کو محفوظ مقام پر پہنچانا بھی بہت ضروری ہے۔ آخر لمبی ڈرائیونگ بور بھی تو کر دیتی ہے۔ تھوڑا سا آرام۔ مزید کئی برسوں کی خوشحالی کا باعث بنتا ہے۔ اس وقفہ کو ’’میثاقِ آرام‘‘ کہہ سکتے ہیں۔
کچھ سال پہلے اس فلم میں اچانک سے نیا موڑ در آیا۔ ہم وطن شائقین دم بخود کہ یہ تو پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ اول دن سے ہیرو کہلانے والے کے قلعہ پر بمباری وہ بھی ایسی کہ نزدیکی ہزاروں ’’مرید‘‘ روکنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ ایسا ایسا سامان۔ ایسے ایسے دیوتا۔ کہانی میں تھرل آگیا۔ ہر شاٹ اتنا جاندار۔ بروقت۔ معلوم ہوا کہ فلم اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ حتیٰ کہ گفتگو گھنٹوں سے پھسل کر منٹوں میں بدل گئی جب یک بعد دیگرے بہت سارے دیوتا ایک ہی ٹوکری سے گرفت میں آئے۔ مگر منظر دھندلا گیا۔ وقفے زیادہ ہو گئے تو پھر شائقین بھی اُٹھنے لگے۔ تمنائیں۔ اُمیدیں بہت کچھ کی آس سے مایوسی کی ایک لہر نے قریب قریب ’’فلم فلاپ‘‘ ہونے پر تصدیقی دستخط ثبت کر دیے تھے کہ وقفہ ختم ہونے کا اعلان ہو گیا۔ مزید ’’سہولتی دیوتا‘‘ دھر لیے گئے تو ’’ریفری‘‘ نے امدادی وسل بجانے سے انکار کر دیا۔ قوم پھر دوراہے پر کھڑی ہے۔ ’’جناب والا‘‘ قوم ٹِکرز نہیں ’’پورا خبرنامہ‘‘ سنتا چاہتی ہے جو صرف خبریں نہیں۔ نتائج سنائے۔
حق ہے اِس ملک کا کہ ایک صدی بعد تو نتیجہ آؤٹ کر دیں کہ کون ’’وِلن’’ ہے اور کون ’’ہیرو‘‘۔ چند اشخاص۔ درجن بھر لوگ یا پھر ساری سیاست۔ مٹھی بھر بیوروکریسی یا پھر پوری کشتی۔ ایسا کیوں؟ کام چند دانے خراب کریں اور روٹیاں سب کی اُٹھالی جائیں۔ مٹھی بھر ’’گیلی گندم‘‘ کی سزا پوری بوری کوکیوں؟؟ ہر گز نہیں۔ قوم اب کی مرتبہ نامکمل۔ طویل وقفوں والے ’’ٹکرز‘‘ نہیں۔مکمل رزلٹ چاہتی ہے۔ ویسا رزلٹ جو 31 مارچ کو نکلتا تھا۔ بچہ سارا سال محنت کرتا ہے اور 31 مارچ اسکے کڑوے۔ میٹھے پھل ہونے پر مہر ثبت کرتا ہے۔ ہم کو بھی ایسا ہی شفاف رزلٹ چاہیے۔ ہمارے اجداد اور پُرکھوں نے اس وطن عزیز میں اپنی جانیں بطور بیج۔ بصورت خون بوئی ہیں۔ وہ کیسے ضائع کر یں۔ جو غلط ہے وہ غلط ہے۔ غلطی ہر ایک کے کندھے پرکیوں؟؟
سمجھوتے ۔بارگیننگ۔ کلین چٹ یہ ’’ہیرو‘‘ کے دیس میں نہیں چلتا۔ ’’ہیرو‘‘ وہ ہے جو 20 سال بعد لارڈز کے میدان میں ’’پُش اَپس‘‘ کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ اب ہر کوئی فٹنس بحال کرنے کی خواہشات بھیج رہا ہے۔ بحالی۔ فٹنس صرف کھیلوں کیلئے مقدر کیوں؟؟ ’’قوم بھی اب بحال ہونا چاہتی ہے۔ ’’فٹ‘‘ ہونا چاہتی ہے۔خوبصورت الفاظ سے مزین تقاریر کے سحر سے نکلنا چاہتی ہے۔ یہ ملک جن عظیم مقاصد کے حصول کیلئے بنایا گیا تھا۔ وہ مشن غتر بود کرنے والوں کا کڑا ۔ شفاف احتساب چاہتی ہے۔ مہنگائی ۔ امن عامہ ۔ سیاست ۔ معاشرت کہیں بھی سکون ۔ خیر نہیں ۔ ’’ورلڈ بینک‘‘ کی ایک اور بہت بُری رپورٹ ہے مزید ایک کروڑ محنت کش بیروزگار ہونے اور پاکستان میں غربت بڑھنے کی ۔ یہ ’’کرونا‘‘ کے پہلے فیز کے اثرات ہیں ۔ مسائل تب تک حل نہیں ہونگے جب تک ہماری نیت میں کھوٹ ہے ۔ ہمارے ارادوں پر طمع چھائی رہے گی ۔
ہمارے ہیرو تاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان کے تابندہ ستارے ہیں۔ پاک۔پاکیزہ ریاست مدینہ کی بنیاد رکھنے والے اور عظیم وطن پاکستان کی جدوجہد کرنیوالے ہمارے ہیرو ہیں۔علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دکھا پاکستان کا تصور پیش کیا اور قائد اعظم نے ’’اللہ تعالیٰ ۔ رحمن ۔ رحیم ۔ کریم‘‘ کی مدد سے اس خواب کو پورا کر دیکھایا ۔حمید نظامی اور عظیم اخبار’’ نوائے وقت ‘‘ نے مسلمانوں کے الگ وطن کے حصول کے جہاد میں شانہ بشانہ حصہ لیکر حق ادا کر دیا۔اور مجید نظامی’’ نظریاتی سپہ سالار پاکستان‘‘ نے وطن کے استحکام ۔ترقی اور جمہوریت کی مضبوطی میں بہت سرگرم کردار ادا کیا۔یہ ہمارے ہیرو ہیں ۔ہمیں اِن کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات
Apr 22, 2024