افغانستان سے دہشت گردوں کی فائرنگ‘ حوالدار شہید‘ جوان زخمی۔ بھارتی ہاتھ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا
افغانستان سے دہشتگردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کے حوالدار تنویر شہید اور ایک جوان زخمی ہو گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق افغانستان سے دہشت گردوں نے باجوڑ کے علاقے میں اندھا دھند فائرنگ کی۔ پاک سرزمین کی حفاظت پر مامور حوالدار تنویر جام شہادت نوش کر گئے۔ زخمی ہونیوالے جوان کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ افغانستان سے دہشتگردوں کی فائرنگ کے واقعات ماضی میں بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ پاک فوج کے سپاہی صابر شاہ بھی بارڈر پار سے فائرنگ کے واقعہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے تھے۔ پاکستان کے بار بار احتجاج کے باوجود افغان حکومت اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھا رہی۔ شہید حوالدار تنویر احمد کو آبائی گائوں باچھلی میں نماز جنازہ کے بعد مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ چاک و چوبند دستے نے سلامی پیش کی۔ آرمی چیف اور صدر مملکت کی جانب سے قبر پر پھول چڑھائے گئے۔ شہید حوالدار تنویر احمد نے سوگواران میں ایک بیٹا، دو بیٹیاں، بیوہ، ایک بھائی اور والدین کو چھوڑا ہے۔ شہید کے والد بھی ریٹائرڈ فوجی ہیں۔
بھارت نے افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کیا۔ اب افغان امن عمل جاری ہے تو بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے منصوبے اور سازشیں خاک میں ملتی نظر آرہی ہیں۔ کرزئی کے بعد اشرف غنی انتظامیہ نے بھارت کے طفیلی ہونے میں کچھ کسر چھوڑی ہے نہ شرم محسوس کی۔ آج پاکستان‘ بھارت اور افغان حکمرانوں کو اسی لئے بھی ناپسندیدہ نظر آتا ہے کہ اسکی کوششوں سے افغان امن عمل میں تیزی سے پیشرفت ہو رہی ہے۔ امریکی اور افغان طالبان کے مابین امن معاہدہ ہو چکا ہے جس پر عمل کی راہ میں افغان حکومت بھارت کے ایماء پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ہر ممکن کوشش اور سازش کررہی ہے۔ اب تک تو انکی سازشیں ناکام ٹھہری ہیں تاہم افغانستان میں امن کے حوالے سے معاہدے پر عمل میں تاخیر ضرور ہو رہی ہے۔ افغانستان میں امن کا قیام طالبان کو مطمئن کرکے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ طالبان کو اقتدار میں حصہ دار بناکر مطمئن کیا جا سکتا ہے یا امریکہ تھوڑا سا پیچھے ہٹے تو طالبان کو افغانستان پر قابض ہونے سے روکنا ایک بار پھر افغان حکمرانوں کے بس میں نہیں ہوگا۔ طالبان مکمل طور پر افغانستان پر قابض ہوتے ہیں یا آج کی افغان انتظامیہ کے ساتھ شریک اقتدار ہوتے ہیں‘ ہر دو صورتوں میں افغان حکمرانوں کے مفادات ہی زد پر ہونگے جو ان کو قومی اور عوامی مفاد سے عزیز تر ہیں۔ بادی النظر میں افغان امن عمل تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے مگر اسے سبوتاژ کرکے سٹیٹس کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔
جس طرح افغانستان اور بھارت کیلئے افغانستان میں امن کی بحالی سوہان روح ہے‘ اسی طرح بارڈر مینجمنٹ بھی انکے سینے سانپ بن کر لوٹتی رہی ہے۔ افغانستان نے ہمیشہ پاکستان سے دہشت گردوں کی آمد کا الزام لگایا‘ پاکستان کی طرف سے تو ثبوتوں کے ساتھ دنیا کو باور کرایا گیا کہ پاکستان سے ضرب عضب کے دوران فرار ہو کر دہشت گرد افغانستان میں مقیم ہو گئے جن کی بھارت پشت پناہی کرتا ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ بارڈر سیل کردیا جائے۔ پاکستان نے باڑ کی تنصیب اور کہیں دیوار کی تعمیر سے پاکستان افغانستان بارڈر کو سیل کرنے کا یارا کیا تو افغان حکمران تلملانے لگے حالانکہ ان کو مطمئن ہونا چاہیے تھا کہ انکے پراپیگنڈے کے مطابق پاکستان سے بارڈر سے دراندازی ہوتی ہے‘ وہ رک جاتی۔ بارڈر سیل کرنے کی افغانستان نے شدید مخالفت کی‘ کئی بار باڑ اور گیٹوں پر حملے کئے گئے جس میں کئی افسر اور جوان شہید ہوئے۔ جتنی بھی باڑ لگ چکی ہے سرحد پار سے دہشت گردی کے واقعات میں کمی ضرور آئی ہے۔
پاکستان اور ایران کو بھی ایک دوسرے سے یہی شکایت تھی۔ پاکستان نے باڑ لگانے کی بات کی تو ایران نے نہ صرف پذیرائی کی بلکہ آدھے اخراجات کی ادائیگی پر بھی آمادگی ظاہر کی۔ جہاں طرفین کی نیک نیتی تھی جبکہ افغان انتظامیہ بھارت کے ایماء پر منافقت سے کام لے رہی ہے۔
کل افغانستان کی سرحد کے پار سے فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کے دو سپوت خاک اور خون میں نہا گئے‘ بلاشبہ یہ بزدلانہ کارروائی ہے۔ اسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسا افغان حکومت کے ایماء کے بغیر ہونا ناممکن ہے۔ بھارت بھی اس میں ملوث ہو سکتا ہے۔ پاک فوج جواب دینے کا حق محفوظ رکھتی ہے اور جواب دیا بھی جا چکا ہوگا۔ افغان بارڈر سے ایسے واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں جن میں شہادتیں بھی زیادہ ہوئی ہیں۔ ادھر ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر ایسی ہی شرانگیزی بھارت کی طرف سے بھی کی جاتی ہے جس کا پاک فوج منہ توڑ جواب دیتی ہے۔ ایل او سی پر بھارت نے باڑ لگا رکھی ہے حالانکہ اسے متنازعہ علاقے میں باڑ کی تنصیب کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ایل او سی عارضی سرحد ہے جبکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر مسلمہ حقیقت ہے۔ ادھر متنازعہ سرحد پر باڑ لگا دی‘ ادھر غیرمتنازعہ سرحد پر مخالفت کی جارہی ہے۔
پاکستان میں افغان سرحد پار سے ہونیوالی دہشت گردی مکمل طور پر روکنے کیلئے باڑ کی تنصیب اور دیوار کی تعمیرجتنی جلد ممکن ہو پایہ تکمیل پر پہنچا دینی چاہیے۔ افغان امن عمل کو بھی جلد ازجلد منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ افغان انٹرا مذاکرات میں تعطل کو دور کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ افغان حکمران تو قیامت تک ان مذاکرات میں طوالت اور تاخیر چاہتے ہیں جس میں کامیابی اس لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ امریکہ اس دلدل سے مزید وقت اور امریکی فوجیوں کو ضائع کئے بغیر نکلنا چاہتا ہے۔ امریکہ افغان انٹرا مذاکرات کی خود نگرانی کرے تو معاملات جلد طے ہو سکتے ہیں۔ ادھر افغان مہاجرین دہشت گردی میں ملوث پائے گئے ہیں‘ سہولت کاری بھی کرتے ہیں ان کو اپنے وطن بھجوانے میں بھی حکومت مزید وقت ضائع نہ کرے۔
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024