کھیت کسان کی زندگی ہے۔کھیت کی زمین تیار کرنے اور بیج بونے سے لے کر فصل تیار ہونے تک کسان کی آنکھیں نگران اور اسکے تمام حواس بے دار ہوتے ہیں کہ کہیں ذرا سی غفلت اس کی تمام محنت برباد نہ کر دے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے رویوں سے ببول کے کانٹے بو کر بدلے میں گلاب کے پھولوں کی توقع رکھنا عبث ہے لیکن ہم تو جرائم ، جہالت اور شر انگیزی کے بیج بونے اور انکی آبیاری میں مشغول ہیں۔کہیں مدرسوں میں ملا کی بے رحمی و بدمزاجی کی فصل میں محرومی کے بیج کیساتھ ساتھ جہالت و کم علمی اس ملا کی صورت سامنے آتی ہے۔جواباً ہم معاشرے سے یہ کردار حذف کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہ بے سوچے سمجھے ہجوم کی نفسیات ہے جو دوسروں کے جوتوں میں اپنا پاؤں پھنسائے ناواقف ڈگر پر دوڑے چلے جاتا ہے۔نتیجے میں مصلحت اور تدبر کی فصل ویران ہو جاتی ہے۔یوں لگتا ہے وحشی جانوروں کا گروہ سوچ و فکر اور تدبر کے کھیت لوٹ لے گیا۔ معاشرے کے یہ قزاق کہیں میڈیا کی صورت معصومیت پر کمند ڈالتے ہیں اور کہیں معاشرے کی صورت بدلنے کے زعم میں عجیب و غریب اصطلاحات کے ساتھ ماورائے عقل دلائل بھی دیتے ہیں۔اشتہار سازی کی صنعت کو ہی لے لیں۔ کھانا پکاتے وقت جن بالوں کو ڈھانپنا چاہیے۔ ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ فوراً سر کے بال کھول ڈالیں تاکہ کھانے میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو بال پوری کر دیں۔کھانا جیسا بھی ہو بالوں کی موجودگی کھانے کی طرف توجہ نہیں جانے دیگی۔ پانچ روپے کے ایک بسکٹ سے ٹنوں چاکلیٹ لاوے کی طرح زمین سے نکلتی ہے اور دوسری منزل پر کھڑے انسان کے دماغ پر قبضہ کر لیتی ہے۔ گرم چاکلیٹ سے جلے دماغ بھی اس بے ہنگم ہجوم کا حصہ اور چھوٹے چھوٹے بموں کی صورت کہیں نہ کہیں پھٹ پڑتے ہیں۔ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ کسی کے بھی گھر میں گھس جائیں اور اس کو باتھ روم کا فلش صاف کر کے دکھائیں۔ممکن ہے خاتون خانہ سازشی ذہن کی مالک ہو اور باتھ روم نہ صاف کرتی ہو۔داغ کو اچھا کہنے کا رواج ، چیخ چیخ کر اپنی بات سنانے کی سعی۔لگتا ہے قوم کو سماعت کا مسئلہ ہے یا تکرار کی خو۔شاید ہمیں ایک بار کہی ہوئی بات سمجھ نہیں آتی۔قوم کا نہ کوئی متفقہ مسئلہ ہے نہ سوچ۔ناچ ناچ کر پاؤں شل ہو جائیں لیکن ہمیں بسکٹ کے دام میں گرفتار رکھا جاتا ہے۔سالوں کی مشقت اور محرومی کی فصل چھوٹے چھوٹے مفادات میں الجھ کر کرگسوں کی نشوونما پر توجہ مرکوز کیے ہیں۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کے نعروں کے پیچھے بھاگنے والی قوم الحمد للہ کئی نئے نعرے ایجاد کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔یہ بے شعور اور اشیاء کی ماہیت سے ناواقف مہرے ایسے بیج ہیں جو مستقل کے کھیت بنجر کر دینگے۔لیکن ہم لباس کی آرائش و تزئین میں مگن سیل کے منتظر رہیں گے۔ پھیلے ہاتھ ہاجرہ مسرور کے" دو ہاتھ" بن چکے ہیں۔اور کلبلاتا ہجوم منٹو کا " نعرہ " جس میں اپنے اپنے مقام پر نہ تو ہم رہے نہ ہی تم رہے۔ ہم یہ کیوں نہیں بتاتے کہ بیٹا اپنے راستے سے ہٹ کر دوسروں کے رستے میں آنا لاقانونیت ہے۔ دوسروں کو فصل کی تیاری پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ان کو اپنی مرضی کے بیج بونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔یہ چھوٹی اور معمولی غلطیاں جرائم کے کھیت تیار کرتی ہیں.
جرائم کی ایک لمبی فہرست میں پورا معاشرہ دفن ہے. آپ کسے پکڑیں گے، کس کی گردن زدنی کرنا ہو گی یا وہ کیا عمل ہو گا جس کی وجہ سے حقیقی تبدیلی آئے گی. جرائم کے ان کھیتوں میں فصل تو دھڑا دھڑ پیدا ا ہو رہی ہے لیکن مسائل کے کیڑوں کو مارنے کیلئے کوئی سپرے نہیں۔کبھی تو لگتا ہے کہ ہماری آنکھوں کو ایک مخصوص منظر دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے. نہ نیا منظر ہو گا اور نہ ہی تبدیلی لائی جائیگی. اہل ہوس بھی جانتے ہیں کہ خربوزوں کے کھیت کو اجاڑنے والے جانور کس نسل سے ہوتے ہیں. ایک واقعے سے توجہ ہٹانے کیلئے نیا موضوع پلانٹ کر لینا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے. اس فلم کے سارے منظر پرانے ہیں اور نئی کہانی کے متلاشیوں کو توجہ کی نظر چاہئے اور کم از کم یہ دیدہ بینا کسی کے پاس نہیں.۔
ایک پرانا مدفن جس میں دفن ہیں لاکھوں امیدیں
چھلنی چھلنی سینہ آدم دیکھنے والے دیکھتا جا
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38