لو جی مبارک ہو گجرپورہ زیادتی کیس کا ملزم عابد ملہی کافی دن پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے کے بعد دھر لیا گیا۔ وہ بھی باپ کی بیٹیوں کے لئے غیرت کام آئی۔ جن کو پولیس اُٹھا کر لے گئی تھی۔ جیسے ہی وہ گھر آیا۔ باپ نے پولیس کو اطلاع کردی۔ دوسری طرف پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اُن کے مخبر کی اطلاع پر پکڑا گیا۔ ہم اس فضول بحث میں پڑے بغیر اس بات پر اطمینان کرتے ہیں کہ ملزم بالآخر قانون کی گرفت میں آگیا۔ اسے کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ برطانوی پولیس اور دیگر ادارے بہت ہوشیار ہوتے ہیں۔ لیکن آج سے تیس چالیس سال پہلے ہونے والی ٹرین ڈکیتی کو وہ بھی آج تک نہیں ڈھونڈ سکے۔ صدر کینیڈی کے قتل کے اصل محرکات کا پتہ نہ چلایا جا سکا۔ دیال سنگھ کالج کی ایک تقریب میں جسٹس رستم کیانی اور گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان اکٹھے مدعو تھے۔ جسٹس رستم کیانی کی تقاریر بہت عمدہ اور معنی خیز ہوا کرتی تھیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے ایوب خان کی حکومت پر چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ پہلی حکومتیں ہمیں سبز باغ دِکھایا کرتی تھیں۔ یہ پہلی حکومت ہے جس نے ہمیں کالاباغ دِکھا دیا ہے۔ امیر محمد خان کو ایک بہترین منتظم تو کہا جا سکتا ہے جنہوں نے بغیر ’’نوٹس‘‘ لئے 1965ء کی جنگ میں تاجروں کو مہنگائی نہ کرنے کی وارننگ دی اور کسی کی جرأت نہ ہوئی کہ کسی بھی چیز کی قیمت میں ایک ٹیڈی پیسے کا اضافہ کر سکے۔ تو وہ بھی میانوالی کے تھے۔ لیکن فرق یہ تھا کہ وہ نوٹس نہیں لیتے تھے۔ صرف مونچھ کو تائو دیتے تھے۔بہرحال عابد ملہی کی گرفتاری نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ پولیس اگر ٹھان لے کہ کوئی جرم نہیں ہونے دینا اور کسی ملزم کو چھوڑنا نہیں تو وہ قبروں سے بھی ملزم نکال لاتی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سیاسی دبائو، نوٹوں کی چمک، ناجائز ہمدردی اور سستی کی وجہ سے وہ مجرم سے گھونگھٹ نکال لیں تو کچھ نہیں ہو گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پولیس اپنے دل میں فیصلہ کر لے اور ایک لکیر کھینچ لے کہ اپنے محکمانہ وقار اور عزت کے تحفظ کیلئے کون سے جرائم ہیں جن کو ناقابل برداشت بنانا ہے۔ کیونکہ کرپشن کو کوئی نہیں روک سکتا نہ یورپ اور نہ امریکہ۔ لیکن وہاں کی پولیس نے کچھ جرائم کو ناقابل برداشت ڈکلیئر کیا ہوا ہے۔ وہ کوئی آسمان سے اُتری مخلوق نہیں ہیں ہماری طرح کے گوشت پوست کے انسان ہیں۔ یورپ میں جرائم کی بیخ کنی، دل شکنی، قانون پر عمل داری اور مجرم سے بے رحمانہ سلوک ’’وہاں لِتر نہیں مارتے‘‘ کئے بغیر اُنکے دل میں خوف، قانون پر عمل داری کیسے کروانی ہے۔ یہ اُن کی مہارت ہے کہ وہ معاشرے میں امن و سکون اور خوف سے پاک ماحول پیدا کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہیں۔میں نے سنٹرل ایشیاء میں دس سالہ پوسٹنگ کے دوران وہاں کے معاشرے اور حکومتی کارکردگیوں کا بغور جائزہ لیا ہے۔ سردیوں کے دنوں میں جب سڑکوں اور راستوں پر برف کے پہاڑ بنے ہوتے ہیں اور سڑکیں سنسان ہوتی ہیں۔ آدھی رات کو خوبصورت لڑکیاں پارٹیوں سے مدہوش اپنے گھروں کو پیدل نکلتی ہیں تو کسی کی جرأت نہیں ہوتی کہ اُن کو اُٹھائے اور لیجائے۔آئیں ذرا اپنے ملک کی کسی سڑک پر رات آٹھ بجے کے بعد کسی ضعیف عورت کو ہی اکیلے سڑک پر چلا کر دیکھ لیں۔ کتنی للچائی نظریں اس پر کمبل پھینک کر اُٹھانے کی منصوبہ بندی کریں گی۔ یہ ہے فرق ___ ہم یورپ کی بات نہیں کرتے۔ سابقہ کیمونسٹ دنیا کا اور ہمارا۔ اکثر شہروں میں گاڑی لاک نہیں ہوتی اور نہ ہی چوری ہوتی ہے۔ یہ ہے فرق وہاں کے قانون کی عمل داری، دبدبے اور خوف کا۔ مجرموں کو پتہ ہے کہ جرم کیا تو پکڑے جائیں گے۔ پکڑے گئے تو ساری عمر باہر نہیں آئیں گے۔اپنے معاشرے کی طرف نظر دوڑائیں تو ہماری ذہنیت ایسی ہے کہ پولیس تشدد کے بغیر ہمارے لوگ کسی جرم کا اعتراف بھی نہیں کرتے۔ کافی عرصہ قبل میں ضلع شیخوپورہ بشمول ننکانہ اپنے بینک کا سربراہ تھا۔ ان دنوں کسانوں کو آٹھ ہزار روپے شناختی کارڈ دِکھانے پر زرعی قرضے ملتے تھے۔ جو غریب کسانوں اور ہاریوں تک تو کیا جانے تھے۔ بڑے زمیندار مزارعوں کے شناختی کارڈ لے کر مِلی بھگت سے بیس تیس قرضے خود لے لیتے تھے اور وہ کبھی واپس نہیں کرتے تھے۔میری پوسٹنگ کے دوران حکم آیا کہ یہ قرضے کافی پرانے ہو گئے ہیں۔ ان کی ریکوری کی جائے۔ ساتھ ہی ایک نائب تحصیلدار اور پولیس کی مدد دے دی گئی۔ فاروق آباد ( ماچھیکے) کے ایک زمیندار نے اُس وقت کے دو لاکھ روپے لئے ہوئے تھے۔ بینک کا عملہ اور سرکاری مددگار ٹکریں مار مار کر تھک گئے لیکن وہ قابو نہ آئے۔ آخر اُس کی قسمت ہار گئی اور وہ پکڑا گیا۔ بینک کی امداد کے لئے آنے والا عملہ اور بینک کا اسٹاف اُسے سیدھا تھانہ سول لائنز شیخوپورہ لے گئے۔ جیسے ہی لٹا کر ابھی پہلی سلامی دی تو اُس نے عملے کو کہا کہ رُکو رُکو کیا چاہئے۔ تو کہا گیا کہ تم قرضہ کیوں نہیں واپس کرتے۔ تو اُس نے پیچھے آنے والے بچوں کو آواز دی کہ لائو پیسے___ اور ہماری ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے کہا۔
’’کسی نے آج تک اس ڈھنگ سے پیسے ہی نہیں مانگے تھے۔‘‘
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024