پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس ، پی ایم ڈی سی کولائسنس دینے پرانکوائری کا حکم
اسلام آباد( وقائع نگار خصوصی) پارلیمنٹ کی ذیلی پبلک اکائونٹس کمیٹی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز( پی ایم ڈی سی) کی جانب سے ایسے میڈکل کالجز جن کے پاس ٹیچنگ ہسپتال تھا اور نہ ہی کالج کے لئے اپنی کوئی بلڈنگ کو لائسنس دینے کے معاملے کی بھی انکوائری کرا کر 60 ایام میں رپورٹ طلب کر لی ذیلی کمیٹی نے فنڈز استعمال نہ ہونے کی وجہ سے اینٹی ریبیز ویکسین کی 28لاکھ ڈوزز(خوراکیں) نہ بننے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور معاملے کی انکوائری کرانے کی ہدایت کی اور 30 ایام میں رپورٹ طلب کر لی جمعرات کو پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینر سینیٹر شیری رحمان کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں وزارت قومی صحت کے سال 2015-16کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ، آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے متعلق پانچ آڈٹ پیراز ہیں، جن پر ڈی اے سی منعقد کی لیکن پی ایم ڈی سی کی طرف سے کوئی ڈی اے سی میں پیش نہیں ہوا، آڈٹ حکام نے کہا کہ ایسے میڈیکل کالجز کو لائسنس دیئے گئے جن کے پاس ٹیچنگ ہسپتال اور بلڈنگ ہی نہیں تھی ، رکن کمیٹی خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ اس معاملے پر ہر صورت میں انکوائری کیجائے کنوینر کمیٹی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ بہت کچھ بغیر کسی قاعدے اور ضابطے کے چل رہا ہے، اس معاملے کی انکوائری بھی کرنی ہے رپورٹ بھی کمیٹی میں پیش کرنی ہے ،60دنوں میں پی ایم ڈی سی سے متعلق پانچوںآڈٹ اعتراضات کی انکوائری رپورٹ کمیٹی کے سامنے پیش کی جائے ، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ( این آئی ایچ) سے متعلق آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ایک پراجیکٹ تھا جس کے تحت ہر سال اینٹی ریبیز ویکسین کی سات لاکھ ڈوزز ( خوراکیں) بنانی تھیں، 2009-10سے 2012-13تک ایک بھی ڈوز نہیں بنائی گئی ،28لاکھ ڈوزز غریب عوام کو نہیں مل سکیں، ریبیز سنجیدہ مسئلہ ہے، ویکسین نہ بنانے کی وجہ بتائی جائے،پیسے واپس ہونے پر بھی انکوائری ہوتی ہے، رکن کمیٹی خواجہ شیراز محمود نے کہا کہ اگر کسی نے غلط کیا ہے تو اس کو سامنے لے کر آئیں۔