چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے جمعیت علماء اسلام (ف)کے امیر مولانا فضل الرحمان کی جانب سے اعلان کردہ آزادی مارچ اور دھرنے کے خلاف دائر دونوں درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے حکم دیا ہے کہ مقامی انتظامیہ اس معاملہ کو دیکھے۔عدالت نے قرار دیا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا ریاست کا کام ہے۔ چیف کمشنر سے دھرنے والوں نے رجوع کیا انتظامیہ کو اس پر فیصلہ کرنے دیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ انتظامیہ درخواست پر فیصلہ کرتے ہوئے قانون اور اس حوالہ سے جاری کئے گئے عدالتی فیصلوں کو بھی مدنظر رکھے۔جو احتجاج نہیں کرنا چاہتے ان کے حقوق کی بھی ریاست ذمہ دار ہے۔عدالت نے قراردیا کہ ریاست احتجاج کرنے والوں کے حقوق کی بھی حفاظت کرے گی،انتظامیہ احتجاج کرنے اور نہ کرنے والوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو اس عدالت نے 2014میں احتجاج کی اجازت دی تھی،مقامی انتظامیہ ہر کسی کے حقوق کی حفاظت کرے گی۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے بدھ کے روز ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور دھرنے کے خلاف دائر دونوں درخواستوں کو یکجا کر کے ایک ساتھ سماعت کے لئے مقرر کرنے کا حکم دیا۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ چیف کمشنر کے پاس جو درخواست دی گئی ہے اس کا اسٹیٹس معلوم کرلیا جائے۔ تاہم اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ ابھی اس چیز کی ضرورت نہیں ہے، اس درخواست پر حکومت نے خود فیصلہ کرنا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ احتجاج کسی بھی شہریکا بنیادی حق ہے اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا،دنیا بھر میں احتجاج کرنے سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا۔ دنیا بھر میں کوئی عدالت احتجاج کے حق کو ختم نہیں کر سکتی۔صرف لوکل انتظامیہ کو دوسرے شہریوں کے حقوق کو بھی تحفظ دینا ہے۔ دوران سماعت درخواست گزار کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے اکتوبر میں حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کو احتجاج کا حق نہیں؟اس پر وکیل حنیف راہی کا کہنا تھا کہ پالیسی کے خلاف احتجاج کا حق ہے ، جمہوری حکومت کے خلاف نہیں۔درخواست گزار کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف)اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کو احتجاج سے روکا جائے۔ اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اس تمام تر صورتحال پر مقامی انتظامیہ مناسب فورم ہے، مقامی انتظامیہ نے امن و امان کو برقرار رکھنا ہے اور دیکھنا ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق صلب نہ ہوں، لہذا اس کے لئے انتظامیہ نے تمام تر انتظامات کرنا ہیں اور قانون کی عملداری قائم کرنی ہے، تاہم کسی بھی شہری کو احتجاج سے نہیں روکا جاسکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے خلاف دائر دونوں درخواستوں کو یکجا کرکے سماعت کے لئے مقرر کرنے کا حکم دیا ہے.
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024