کشمیر سے میرا پہلا تعارف سری نگر کی ایک بیٹی کے ذریعے ہوا۔ یہ جنوری انیس سو ستاسی کی بات ہے۔ میںایک ماہ ملائیشیا میں گزار کر وطن واپسی کے سفر میں دو روز کے لئے سنگا پور ٹھہرا۔ ہوٹل والوں سے پوچھا کہ شہر کی سیر کس طرح ممکن ہے۔ انہوںنے بتا یا کہ کچھ دیر میں یہاں ایک بس آئے گی۔ یہ مختلف ہوٹلوں سے سیاحوں کو لے کر شہر کے تاریخی مقامات کا چکر کاٹے گی۔ میں بھی اس بس میں سوار ہو گیا۔ بس زیادہ بھری ہوئی نہیں تھی اور میںنے دیکھا کہ پچھلی ایک سیٹ پر کوئی آٹھ نو برس کی بچی بیٹھی ہے۔ میں سمجھا کہ پاکستان سے ا ٓئی ہو گی۔ میںنے اس سے بات کر نے کی کوشش کی تو وہ اگلی سیٹوں پر اپنے والدین کے پاس چلی گئی۔ میں نے اس کے ماں باپ سے اپنا تعارف کرایا۔ بچی کی ماںنے بتایا کہ وہ لوگ کشمیری ہیں۔ اور وہ شیخ عبداللہ کی بہن ثریا ہے اور ان کے ساتھ ان کے خاوند ڈاکٹر محمد علی متو ہیں۔کافی دیر ان سے گپ شپ رہی۔ چند گھنٹوں کا سفر تمام ہوا اور میں پاکستان چلاآیا۔ چند ماہ بعد ریگل چوک پر کلاسیک کے ساتھ والی دکان سے ایک صاحب نے فون کیا کہ وہ سری نگر گئے تھے اور میرے لئے شیر کشمیر شیخ عبداللہ کی خود نو شت ۔۔آتش چنار کا ایک نسخہ لائے ہیں جو انہیں ڈاکٹر محمد علی متو اور ان کی بیگم ثریا نے تحفے کے طور پر بھجوایاہے ۔کتاب کے پہلے صفحے پر ان تینوںنے اپنے دستخط کئے تھے ۔ سنگا پور میںمختصر سی ملاقات ایک طویل رفاقت کا حرف آغاز بن گئی۔ ایک عرصے تک ڈاکٹر صاحب اور ان کی بیگم سے فون پر میری بات چیت ہوتی رہی۔یوں شیخ عبداللہ کی نوعمر نواسی نے میرا تعلق کشمیر سے جورڑ دیا۔روحانی، قلبی اور جذباتی تعلق تو پیدائشی تھا۔
مجھے یہ خاندان ا ٓج اسوقت پھر یادا ٓیا جب این ڈی ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلی کہ بہتر دنوں کے کرفیو کے بعد سری نگر کی غیر سیاسی خواتین نے لال چوک میں ایک جلوس نکالا۔ اس جلوس میں پیشہ ور خواتین تھیں ۔ کچھ ڈاکٹر، کچھ انجینئر، کچھ ملازم پیشہ اور ان کے ہمراہ ان کی بیٹیاں بھی۔ وادی کشمیر میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ ہے۔ یہ قانون بھارت کوانگریز کی وراثت سے ملا ہے اور خوب کام دے رہا ہے۔ سر نگر کی پولیس لال چوک میں جمع ہونیو الے خواتیں کے اس جلوس پر پل پڑی اور انہیں ہانک کر گاڑیوںمیں بٹھایا اور مختلف تھانوں میں لے جا کر بند کر دیا۔ اب بھارت کے ہر ٹی وی چینل کی ہیڈ لائن یہی جلوس ہے اور ٹی وی اینکر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ کشمیرکے سابق وزیر اعلیٰ فارق عبداللہ کی بہن اور بیٹی کو گرفتار کر لیا گیا۔ فاروق عبداللہ کی بہن عمر عبداللہ کی بھی بہن ہے۔ وہ بھی کشمیر کے وزیرا علیٰ رہ چکے ہیں ۔،اور گرفتار ہونیو الی یہ خاتون شیر کشمیر شیخ عبداللہ کی صاحب زادی بھی ہیں۔ خبروں میں ان کا نام نہیں بتایا گیاا ور میں سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ وہی خاتون تو نہیں جن سے میری ملاقات سنگا پور میں ایک بس ٹور کے دوران ہوئی تھی۔
اس خبر کو سنتے ہوئے مجھے آپا مہناز رفیع کا فون آ گیا ۔ وہ مجھ سے کوئی اور مسئلہ ڈسکس کرنا چاہتی تھیں ۔ میںنے انہیں درمیان میں ٹوک کر بتایا کہ کہ دیکھیں کشمیر میں پہلا احتجاج سری نگر کی بیٹیوںنے کیا۔ آپا مہنا رفیع نے کہا کہ دنیا میں خواتین نے کئی بار سیاسی احتجاج میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔انہوںنے بتایا کہ ایوب خاں کے خلاف بھی مال روڈ پر پہلا جلوس خواتین نے نکالا تھا جس میں شورش کاشمیر ی کی بیٹی شاہدہ شورش خاردار تاروں میں الجھ کر گر پڑی تھیں اور پولیس نے ان پر ڈنڈے برسائے تھے مگر شاہدہ شورش ایک عظیم باپ کی حوصلہ مند بیٹی تھیں۔ وہ مسلسل آگے بڑھتی رہیں اور گورنر ہائوس کے گیٹ پر سیاہ جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہو گئیں۔ اندر سے یہ سارا منظر جنرل موسیٰ نے آنکھوں سے دیکھا۔ اور ایوب خان کو بتایا بھی ہو گا۔
کشمیر میںبہتر روز پہلے کرفیو نافذ ہوا تو میں نے پاگلوں کی طرح وہ نظمیں تلاش کرنا شروع کر دیں جن کا عنوان تھا ،سری نگر کی بیٹیاں۔ ایک نظم شورش کاشمیری نے لکھی تھی۔ دوسری قیوم نظر نے اور تیسری ابو سعید قریشی نے۔ تلاش بسیار کے بعد میں نے یہ تینوںنظمیں اپنے کالموں میں پیش کر دیں۔ میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ سری نگر کی بیٹیاں ہی بھارت کا غرورخاک میں ملائیں گی۔میں ان نظموں کے سحر سے نہیں نکل سکا تھا کہ اب سری نگر کی بیٹیوںنے وہ کارنامہ کر دکھایا جس کی طرف وزیر اعظم عمران خاںنے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اقوام عالم کی توجہ مبذول کروائی تھی ۔ انہوںنے اپنی دور بین نگاہوں کی مدد سے کہا کہ جب بھی کرفیو اٹھے گا تو کشمیر میں ا یک ا ٓتش فشاں پھوٹ نکلے گا۔ اس آتش فشاں کا پہلا منظر میںنے ابھی ابھی بھارتی ٹی وی چینلز پر دیکھ لیا ہے۔ میںنہیںجانتا کہ سری نگر کی بیٹیوں کی گرفتاری کی خبر دنیا کے ٹی وی چینلز پر آسکے گی یا نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ہی نے چندورز قبل افسوسناک لہجے میں کہا تھا کہ ہانگ کانگ میں چند لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں اور پولیس سے ان کا تصادم ہوا ہے تو عالمی میڈیا شہ سرخیوں کے ساتھ ان کی خبریں نشر کررہا ہے مگر کشمیر میں اسی لاکھ مسلمانوں کو ایک قید خانے میں بند کر دیا گیا ہے۔ وہ بھوکے اور پیاسے ہیں۔ دوا دارو سے محروم ہیں۔ بچے اسکول نہیںجا سکتے۔ بازار بند اور سننسان پڑے ہیں، ہسپتالوں میں ادویات نہیں۔ٹیلی فون اور وائی فائی بند۔ اندر کی خبر باہر نہیں آ سکتی مگر عالمی میڈیا ٹس سے مس نہیں ہوتا۔مگر اب میڈیا کشمیر کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے۔ وہ ہو گیا جس کا اندیشہ وزیر اعظم عمران خان نے ظاہر کیا تھا اور اقوام عالم کے سامنے کیا تھا۔ لال چوک میں سری نگر کی بیٹیوں کے جلوس پر بھارتی سیکورٹی فورس کے جبر اور ان کی گرفتاری کی خبر این ڈی ٹی وی پر بار بار نشر ہو رہی ہے۔ فاروق عبداللہ کی بہن اور بیٹی کی گرفتای کی خبر غیر معمولی ہے۔ یہ خاندان تاریخی طور پر بھارت کا ہم نوا زا ہے مگرا ٓج ہندواتا کے فلسفے کے علم بردار نریندر مودی کے لئے یہ خاندان بھی برداشت سے باہر ہے۔ اس نے محبوبہ مفتی کو بھی نظر بند کیا ہے۔راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزادکو سری نگر جانے سے روک دیا ہے ۔ راہول گاندھی کو بھی سری نگر داخل نہیں ہونے دیا۔ مودی سمجھتا ہے کہ کشمیر اس کا ذاتی اثاثہ ہے۔ ویسے تو وہ اسے بھارت کا اٹوٹ انگ کہتا تھا مگر بھارت پر راج کرنے والے نہرو خاندان ا ورا س کی پارٹی کانگرس پر بھی کشمیر کے دروازے بند ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انگریزوںنے کشمیر کو مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت نہیں کیا تھا۔ نہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا بلکہ اسے مودی کی ذاتی جاگیربنا دیا تھا۔ کشمیر کسی کی جاگیر نہیں۔یہ بات لال چوک میں سر ی نگر کی بیٹیوں کے ایک جلوس نے ببانگ دہل ثابت کر دکھائی ہے۔ کشمیر اگر کسی کی جاگیر ہے تو یہ سری نگر کی بیٹیوں کی جاگیر ہے۔ شوپیاں کے نوجوانوں کی جاگیر ہے۔ اور کپواڑا کے برہان وانی کے جانثاروں کی جاگیر ہے، اس کشمیر کی سر زمین کو ایک لاکھ کشمیریوں کے خون نے سینچا ہے۔
شورش کاشمیری نے لکھا تھا کہ
دلیر ہیں۔ جوان ہیں
جہاد کا نشان ہیں
سری نگر کی بیٹیاں
نکل پڑی ہیں جنگ میں
گھروںکا چین چھوڑ کر
سری نگر کی بیٹیاں
اور میرے استاد پروفیسر قیوم نظر نے بھی
مستقبل بینی سے کام لیتے ہوئے لکھا تھا
ہیں جمع لال چوک میں
ستم گروں کا دست ظلم توڑنے
وہ بڑھ رہی ہیں ہر طرف
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024